پوری پریس کانفرنس کے بیانیہ کا ایک لفظ۔ ایک سطر بھی ایسی نہیں جو ہماری دل کی آوازنہ ہو۔ ہماری آدھی سے زائد زندگی ”فوج“میں گزری قوم کی خدمت کرتے ہوئے۔ ایسے حالات میں بھی کہ مہینوں بجلی کے بغیر گزارنا پڑتے تھے۔ ہفتوں اکیلے بچوں کے ساتھ رہنا پڑتا تھا کہ ”میاں صاحب“ تربیتی مشقوں پر ہوتے تھے۔ نہ خواہش چلتی تھی نہ سفارش‘ درو دراز علاقوں میں طویل سفر۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں تبادلہ۔ قانون قاعدوں کے سخت نہ بدلنے والے ماحول میں۔ صرف ”ہم“ نہیں اب” بچے“ بھی فوج کا حصہ ہیں اور تھے۔ شدید ترین موسم۔ انتہائی گرم۔ انتہائی سرد علاقے۔ شاذ ہی گیس والے علاقے ملے۔ کبھی پانی نہیں کبھی راستہ بند۔ نلکوں میں پانی جم جاتا تھا۔ کبھی چھوٹا کوارٹر نما گھر کبھی کنال پر محیط گھر۔ خیر ”فوجی زندگی “پر طویل کتاب لکھی جاسکتی ہے موقع ملا تو ضرور لکھوں گی۔ کافی حد تک تیاری کر چکی ہوں۔
’فوج کا نام پاکستان ہے“۔ جو تمام طبقات۔ علاقوں۔ صوبوں سے ایک مسلسل عمل کے ذریعہ بھرتی کردہ افراد پر مشتمل فورس ہے۔ اِسی لیے ”قومی فوج “ کہلاتی ہے۔ بجا سیاست سیاستدانوں کا کام ہے۔ جغرافیائی حدود کی حفاظت قطعی طور پر افواج کی ذمہ داری ہے۔ یقینا ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظمیں سیاست میں ملوث نہ ہوں تو بہتر ہے پر سوچئیے کہ آخر ”ووٹ“ ایک ایسی طاقت ہے جو ہر شخص کی قومی ذمہ داری ہے۔ ”سیاست“ حاضر سروس افسران کا تعلق چاہے خاکی سے ہے یا انتظامی سے۔ قطعاً زیب نہیں دیتا کہ کھلے عام اپنی سیاسی وابستگی ظاہر کرتا پھرے۔ ہاں ”ووٹ“ کے ذریعہ اپنی پسند کا اظہار قانونی حق ہے۔
اتفاق رائے ایک ایسا قابل تقلید لفظ ہے جو ہمیشہ اپنے مضامین میں اپنانے کا ہر کسی کو مشورہ دیا۔ واقعی درست اظہار تھا کہ کفایت شعاری پالیسی پر ”فوج“ نے عمل کیا یقینا ”فوج“ ایک نظم کے تحت کام کرتی ہے اور کمانڈ اصول کے تحت چلنے والے احکامات کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ ”فوج کا نام پاکستان ہے“۔ پہاڑی علاقوں سے قبائلی پٹی تک شاہرات کی تعمیر سے سکولز۔ کالجز کے قیام کے کارنامے صرف ”مجتمع قوت“ ہی سر انجام دے سکتی ہے اور وہ ہے ”فوج“۔ ”دہشت گردی“ لفظ ہی اتنا خوفناک ہے کہ آدمی لرز جاتا ہے۔ بیخ کنی صرف ”قوت واحدہ“ ہی کر سکتی ہے کیونکہ تمام تر وسائل سے لیس ہے۔ ہاں بہت ضروری ہے کہ ناسور جو ثابت ہو چکا ہے اسکے متعلق سب متفق۔ متحد ہوں۔ ازلی دشمن ہو یا پھر دوستی کے نام نہاد لبادے میں چھپا مکار قریبی دوست ہم سب کی ایک آواز ہونی چاہیے کِسی کا بھائی‘ کِسی کا بیٹا‘ کِسی کا شوہر‘ سسر‘ بہو ”فوج“ میں ہے امن عامہ نافذ کرنےو الے اداروں میں ہے تو مطلب صاف ہوگیا کہ ہم سب ایک وطن کے باشندے ہیں۔ تمام ادارے ہم سب کے ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کےساتھ ملحق ہیں۔ ج±ڑے ہوئے ہیں تو ایسے میں ”کوئی“ کیسے اپنی طاقت کو جانبدار ہو کر استعمال کر سکتا ہے۔ کِسی ایک طرف جھکاو¿ ظاہر کر سکتا ہے یقینا عوامی پسند‘ خواہشات اپنی جگہ۔ اکثریتی رائے کا احترام از حد ضروری ہے۔ آئین کی بالادستی سب سے بڑھ کر کیونکہ ہم سب ا±سی دستور کے تحت ایک ملک کے شہری ہیں۔ ہمارے کچھ فرائض ہیں جو ہم ادا کرتے ہیں تو ہمارے کچھ حقوق بھی ہیں جو آئین نے ہمیں عطا کیے ہیں ان حقوق کی ادائیگی ک±لی طور پر حکومتِ وقت کے ہاتھوں میں ہوتی ہے اور حکومتِ وقت کے معاون ادارے عوامی حقوق کی بروقت۔ شفاف ادائیگی کے سلسلہ میں برابر کے ذمہ دار ہوتے ہیں تو ذمہ داری کا زیادہ بوجھ ہمارے ا±وپر زیادہ ہے۔”مارشل لا“ نہیں لگے گا اور الیکشن بھی قومی ہونگے کِسی بھی دور کے اخبارات ا±ٹھا کر پڑھ لیں۔ برقیاتی ٹکرز۔ پروگرامز کو کھنگال لیں ہمیشہ کی طرح افواہوں کی مایوسی پھیلاتی مارکیٹ گرم ہے۔افسوس جھوٹ قیاس آرائیوں اور اپنی سوچوں تلے مقید خبروں کو پھیلانے والے بھی ہم ہیں۔ فارورڈ کرنیوالے بھی ہم۔ بیرونی دنیا بہت آگے سفر کر چکی ہے کِسی کو ہمارے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ کیونکہ سب بگاڑ ہمارا پیدا کردہ ہے۔ اب سدھارنے کے لیے بھی ہمیں خود آگے بڑھنا پڑے گا اور خود کو بدلنا ہوگا۔ عملی۔ ٹھوس اقدامات ضروری ہیں۔”چین“ کے ساتھ الفاظ سے آگے بڑھ کر عملاً مضبوط ترقیاتی۔ معاشی۔ خارجی امور پر ٹھوس تعلقات قائم کرنا تقاضا ہے۔ دوستوں کو نہ آزمائش میں ڈالنا چاہیے اور نہ مطلب براری کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔ ”ایران“ کےساتھ ”گیس معاہدہ“ پر عمل کرنے کا فیصلہ معاشی طور پر پاکستان کو منجدھار سے نکال سکتاہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ ”باٹر سسٹم“ پر تجارت کا آغاز کر دینا چاہیے۔ ”چین“ سے مقامی کرنسی میں تجارت ترجیح اول بنا لیں۔ قومی پالیسیوں کی ترتیب۔ تدوین اور نفاذ کو ہر طرح کے شک۔ سیاست سے م±برا ہونا ضروری ہے۔ مدت کی قید بھی نہیں ہونی چاہیے۔ قومی مفاد یہی ہے کہ عوامی۔ فلاحی منصوبے چلتے رہیں کوئی بھی نہ روکے۔ کوئی بھی نہ فنڈز کی کمی کا بہانہ کر کے بند کریں۔ پاکستان تو ”انشاءاللہ“ ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا ہے۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں پر اب پالیسیاں۔ فیصلے طویل المدت بھی ہوں اور قلیل المدت بھی۔ تنقید ہمیشہ بہتری کا باعث بنتی ہے مگر ضروری ج±زو یہ ہے کہ بامقصد ہو صرف چِڑانے کیلئے نہ ہو۔ یہ ملک‘ ادارے ہم سب کے اپنے ہیں۔ بے بنیاد الزام تراشی کرنے کا مقصد سوائے اِس کے کچھ نہیں کہ خود کو کمزور کرنا۔ کمزوری ”دشمن“ کی خواہش ہے تو چاہیے کہ دشمن کی خواہش ہم کیوں پوری کریں۔ دشمن کے ارادوں کو ناکام بنانا صرف ایک ”ادارے۔ فرد“ کے بس کی بات نہیں مجموعی ذِمہ داری پوری قوم کی ہے جب بھی بات ہو پاکستان کے تحفظ‘ مفاد کی تو ہم سب کو سیاسی۔ جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر بطور ”پاکستانی“ سوچنا چاہیے۔ عمل کرنا چاہیے۔ سیاسی دشمنی میں اتنا نہ آگے چلے جائیں کہ سب کچھ خطرے میں ہو اور” انا“ ناک پر بیٹھی رہ جائے۔ یہ ”ملک“ ہمارا ہے اِس کے ”ادارے“ ہمارے ہیں ا±نکا تحفظ کرنا۔ خیال رکھنا۔ احترام کرنا انتہائی ضروری ہے۔