سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاءبندیال کو ایک مراسلہ بھجوایا ہے جس میں مختلف آئینی شقوں کا حوالہ دیتے ہوئے قومی اسمبلی کے اختیارات کا ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ لازمی طور پر خود کو سیاست سے الگ رکھے۔ پانچ صفحات پر مشتمل اس مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ ہمیں آئین اور جمہوریت کیلئے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے کی حدود میں مداخلت نہ کی جائے‘ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کیا جائے۔ انتخابات کے اخراجات کی منظوری قومی اسمبلی کا اختیار ہے‘ پارلیمنٹ کو اسکے آئینی اختیارات سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ فیصلوں اور ججز کے ریمارکس پر عوامی نمائندوں کو تحفظات ہیں۔ عدالتی فیصلے قومی اسمبلی کے دو بنیادی آئینی اختیارات سے متجاوز ہیں۔ عدالتی فیصلے سے پارلیمنٹ کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔ سپریم کورٹ سیاسی الجھنوں میں نہ پڑے۔ سیاسی معاملات پارلیمان کو ہی حل کرنے دیئے جائیں۔ چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان پارلیمنٹ کی حدود کا احترام کریں۔ خط میں سپیکر قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ وہ ایوان کے کسٹوڈین کے طور پر یہ مراسلہ بھجوا رہے ہیں۔ محاذآرائی سے بچنے کیلئے ریاست کے ہر ستون کو اپنے ڈومین میں کام کرنا چاہیے۔ ماضی میں عدلیہ نے بہت غیرجمہوری اقدامات کئے‘ عوام نے جمہوریت کی بحالی کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ سیاست دانوں کو ہمیشہ انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ پچاس سال کے دوران آمروں کی پارلیمانی اختیار میں متعدد بار مداخلت دیکھ چکے ہیں۔ عدلیہ نے اپنی بندوقوں کا رخ سیاست دانوں کی طرف ہی کئے رکھا ہے۔
سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی سیاست کے تابع تین ماہ قبل پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں تو ان اسمبلیوں کے 90 دن کی آئینی میعاد کے اندر انتخابات کے انعقاد کے معاملہ میں آئینی ریاستی اداروں‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ اور انتظامیہ (حکومت) کے مابین اپنے اپنے آئینی اختیارات کے معاملہ میں الجھاﺅ پیدا ہونا شروع ہوا جو آج بڑھتے بڑھتے اس انتہاءکو آپہنچا ہے کہ بالخصوص سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ عملاً ایک دوسرے کے مدمقابل آچکے ہیں جبکہ اس ایشو پر سپریم کورٹ کے اندر بھی واضح تقسیم اور تفریق نظر آرہی ہے اور گزشتہ روز انتہاءیہ ہوئی ہے کہ حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کے اجلاس کے علاوہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی چیف جسٹس سپریم کورٹ اور انکے ساتھ بنچ میں شامل دوسرے دو فاضل ججوں کے معاملہ میں انتہائی سخت زبان استعمال کی گئی اور سپریم کورٹ کے ان تینوں فاضل ججوں کو پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی کے روبرو پیش ہونے کا تقاضا کیا گیا جبکہ آئین کی دفعہ 68 کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی فاضل جج کے کسی مقدمہ کی سماعت کے دوران کنڈکٹ کو پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا مگر گزشتہ روز اتحادی قیادتوں کے اجلاس میں بھی اور وفاقی کابینہ میں بھی سپریم کورٹ کے فاضل ججوں اور انکے کنڈکٹ پر کھلی تنقید کی گئی جس کا لب لباب سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھجوائے گئے مراسلہ کی صورت میں سامنے آیا۔
اس وقت جبکہ پنجاب اسمبلی کے 14 مئی کے انتخابات کیلئے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے احکام پر عملدرآمد کا کیس اسی بنچ کے روبرو زیرسماعت ہے اور فاضل بنچ کے ان احکام پر عملدرآمد سے گریز کرنے سے حکومت اور ارکان پارلیمنٹ سمیت تمام متعلقین توہین عدالت کی کارروائی کی زد میںآسکتے ہیں اس لئے اس کیس کی سماعت کے موقع پر حکومت اور حکومتی اتحادیوں کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور دوسرے فاضل ججوں کے کنڈکٹ کے حوالے سے انتہائی جارحانہ طرز عمل اختیار کرکے جلتی پر عملاً تیل ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے معاملات سلجھاﺅ کی بجائے مزید بگاڑ کی جانب جائیں گے اور پہلے سے موجود سیاسی منافرت کی فضا میں ایک دوسرے کے مخالف سیاسی قائدین اور انکے کارکن سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے کی کوشش کرینگے تو پھر ملک میں خانہ جنگی کی ویسی ہی فضا استوار ہو گی جس کی آج سوڈان لپیٹ میں ہے۔ یہ کسی مہذب معاشرے کی عکاسی تو ہرگز نہیں۔
معاملہ ریاستی اداروں کے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہنے کا ہے اور متعلقہ ریاستی ادارے اس معاملہ میں ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرا رہے ہیں اور اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ بے شک اس معاملہ میں الجھاﺅ کا آغاز چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے سے ہوا تھا۔ اگر اس وقت ہی متعلقین کی جانب سے معاملہ فہمی کا راستہ اختیار کیا جاتا اور حکومتی اتحادیوں کو دو صوبائی اسمبلیوں کے قبل ازوقت انتخابات اپنی سیاست یا ملکی اقتصادی اور امن و امان کی صورتحال کی بنیاد پر قبول نہ ہوتے تو وہ ان صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا اقدام سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیتے۔ اس کیلئے نوازشریف کے کیس میں سپریم کورٹ کا 1997ءکا فیصلہ بنیاد بن سکتا تھا جبکہ کیس کے میرٹ پر سپریم کورٹ تحلیل شدہ اسمبلیاں بحال کرنے کے احکام صادر کر سکتی تھی۔ اس طرح دو ریاستی اداروں کے باہم ٹکراﺅ کی نوبت ہی نہ آتی مگر حکومتی اتحادی تو اس وقت عمران خان ہی کے ہاتھوں پی ٹی آئی کی دو اسمبلیوں کی تحلیل پر اپنی سیاسی کامرانیوں کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔
اب حکومتی اتحادیوں اور عمران خان کے اپنے غلط سیاسی فیصلوں کے نتیجہ میں سیاسی محاذآرائی اس انتہاءکو جا پہنچی ہے اور بحران اتنا گھمبیر ہو گیا ہے کہ فریقین کیلئے واپسی کا راستہ اختیار کرنا عملاً ناممکن نظر آتا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے بعض احکام و اقدامات سے بھی بگاڑ کے راستے ہموار ہوئے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے بے شک سیاسی قیادتوں کیلئے ایک ہی دن انتخابات کے معاملہ میں افہام و تفہیم کے راستے ہموار کرنے کی کوشش کی مگر اس سے عدلیہ کے سیاست میں عمل دخل کا تاثر اجاگر ہوا اور اسی کو لے کر آج حکومتی سیاسی قیادتیں چائے کے کپ میں طوفان اٹھا رہی ہیں اور نوبت ایک دوسرے کے اختیارات کو چیلنج کرنے تک آپہنچی ہے۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاسی قیادتوں نے باہم مذاکرات کے ذریعے افہام و تفہیم کا راستہ تو بادی النظر میں بند کردیا ہے جس سے مزید خرابی پیدا ہونے اور معاملات سیاسی قیادتوں کے ہاتھ سے نکلنے کا امکان ہے۔ تاہم حکومتی اتحادی اب بھی آئین و قانون کا راستہ اختیار کرکے موجودہ غیرمعمولی حالات کو معمول پر لاسکتے ہیں جو پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات کی وضاحت اور سپریم کورٹ کے چار‘ تین اور تین‘ دو کے فیصلوں کے پیدا شدہ تنازعہ کے تصفیہ کیلئے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کرنے سے ممکن ہو سکتا ہے۔ حکومتی اتحادیوں کو سپریم کورٹ کے ساتھ الجھنے کے بجائے پہلے ہی یہی راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا جس سے 14 مئی کے انتخابات کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے احکام پر عملدرآمد نظرثانی کی درخواست کے فیصلہ کے ساتھ مشروط ہو جاتا۔ اب بھی یہ راستہ اختیار کرکے معاملہ سلجھایا جا سکتا ہے اس لئے کم از کم سسٹم کو بچانے کی خاطر حکومتی اتحادی قیادتوں کو فوری طور پر ریویو پٹیشن دائر کرنے کے راستے پر آجانا چاہیے بصورت دیگر وہ ان عناصر کی خوشی کا اہتمام ہی کرینگے جو اس ملک اور سسٹم کو مستحکم ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔