سلمیٰ اعوان کا لائف اچیومنٹ ایوارڈ

Apr 28, 2024

بلقیس ریاض

سلمیٰ اعوان کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ(Life time achievement award) ملنے پر فلیٹیز ہوٹل(Fletty's Hotel) میں۔۔۔خوبصورت تقریب کا انعقاد ہوا تو میں وہاں موجود تھی ۔۔۔۔سلمیٰ مستحق ہے۔۔۔اس ایوارڈ کی۔۔۔۔بلکہ اسے یہ ایوارڈ بہت پہلے مل جانا چاہیے تھا خیر دیر آئے درست آئے۔
ایوارڈ دینے کیلئے بہت ہی خوبصورت محفل سجی ہوئی تھی۔ ایک پیاری ہستی کی وجہ سے کتنے چراغ ایک جگہ جمع ہو گئے تھے۔۔۔۔جو کوئی مسکراتا ہوا آتا تو گلدستہ اس کے ہاتھ میں ہوتا۔۔۔سلمیٰ بڑی محبت سے ہر ایک کو ملتی اور ان سے پھول وصول کرتے ہوئے شکریہ کہتی۔۔۔پھولوں کی مہک اوراس کی اپنی محبت کی خوشبو کی وجہ سے سارا ہا ل معطر ہو گیا تھا۔
لوگ اس کی تحریر کے مداح ہیں کیونکہ اس کی تحریر میںبڑی سادگی اور سلجھا ہوا بے لوث پن ہے۔ اس لئے کہ اس کی شخصیت میں کسی قسم کی کوئی بناوٹ نہیں ہے۔
 جو کچھ لکھا بہت عمدہ لکھا اس عہد کی بہترین مصنفہ ہیں جس نے ان تھک محنت کر کے دنیا کو ثابت کر دیا کہ اچھے  سفرنامے کیا ہوتے ہیں۔ 
سلمیٰ اعوان کے ساتھ میری چالیس سالہ دوستی اور ادبی رفاقت ہے ۔ میری زندگی کا سرمایہ ہے۔ ایک اعلیٰ ادیبہ اور تخلیق کا۔ سلمیٰ ہے ہی اچھی لیکن وہ ایک خوبصورت انسان بھی ہے۔ چار دہایوں میں میرا سلمیٰ اعوان کے ساتھ ہر
 موڑ پر واسطہ رہا اور اس نے میرا ساتھ دیا ۔ میری حوصلہ افزائی بھی کی اور کبھی کبھی تعمیری تنقید بھی کی۔ 
سلمیٰ جیسے انسان آج کے اس عجیب و غریب دور میںکم ہی ملتے ہیں۔ اس کے فن پر گھنٹوں بات ہوسکتی ہے۔ لیکن میں اتنا کہوں گی کہ سلمیٰ کے سفرنامے لازوال ہیں اور مستقبل میںہر عہد میں لکھنے والے تخلیق کا معیار بناتے  ہیں۔ سلمیٰ ہمارے عہد کی ملکہ ہے۔۔۔۔۔۔ شام کے ملک جانے کی بڑی دشواری تھی ۔۔۔۔ وہاں جاتے ہوئے مرد بھی گھبراتے تھے مگر محترمہ نے نڈر ہوکر تن تنہا سفر کرنے کا ارادہ کر لیا۔۔۔۔۔ دل دہل رہا تھا کہ یہ کس طرح شام کے ملک جائے گی ۔ تنہا عورت کسی کو اپنے ہمراہ نہ لے کر جائے اور اکیلی گھومے پھرے تو ستارہ جرأ ت لینے والی بات ہو گی۔
بڑا ہی کٹھن مرحلہ تھا اور جن باتوںکا اظہار ایک عورت سے کس طرح ہوگا مگر اس نے جرأت مندی سے ان باتوں کا خیال رکھا مگر اچھے انداز میں بیان بھی کر دیا بلکہ واقعات اور تجربات احسا سات کے ایسے پہلو بھی ہوتے ہیں جس پر ایک نظر نہیں پڑتی مگر سلمیٰ کی نظر اس کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے اور اپنے مشاہدے سے چھوٹے سے چھوٹے واقعات کو غیر معمولی بنا دیتی ہے۔ 
اپنے سفر نامے میں کبھی کبھی پنجابی کا لفظ استعمال کرنے سے اس کی تحریر کا مزہ دوگنا ہو جا تا ہے ۔ اس کے سفرنامے پڑ ھ کر کوئی ایسا نہیں ہوگا جو داد نہ دے ۔ اس کا سفر نامہ شام امن سے جنگ تک پڑ ھ کر میں فضا میں گم ہوگئی۔ اس کی خوبصورت تحریر کے جادو نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔  
سلمیٰ ایک جہان دیدہ خاتون ہے۔ اس کی تحریر میں پیار کرتا ہوا انسان دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ ہر ایک سے محبت کر تی ہے۔ ۔۔۔ اور ہر ایک کو خوش رکھتی ہے۔۔۔کوئی اس سے ناراض نہیں ہوتا وہ ایک درویش صفت خاتون ہے۔ وہ شام کے سفر میں کوئی ایسا مزار نہیں تھا۔ جہاں اس نے حاضری نہ دی ہو اور نفل نہ پڑھے ہوں تنہا عورت کسی کو ساتھ نہ لے کر جائے اور اس طرح کے سفر نامے لکھے تو بڑی جرأت مندی اور حیرت کی بات ہے۔
سلمیٰ اعوان بہترین سفرنامہ نگار ،کالم نگار، افسانہ نگار اور ناول نگار بہت سی خوبیوں کی مالک ہے ۔ اس نے چین کا سفر نامہ میرے ہاتھ میں دیا تو میں نے جب پڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ ایک انمول موتی سمندر کی گہرائیوں سے نکل کر میرے ہاتھ میں آگیا ہو۔
برصغیر کے ادبی افق پر سب سے چمکدار ستارا سلمیٰ اعوان کی ذات ہے ۔ اس کی تخلیقی صلاحیتیں عمر کے ساتھ ساتھ پھیلتی رہیں۔ زمانے کی دھوپ نے اس کے ادب کو نکھارا اسے خود معلوم نہیں تھا ۔ کتنا عمدہ لکھتی ہے ۔ اس کے دل میں عاجزی اور انکساری ہے۔ سادہ طبیعت اور ذرا بھر غرور نہیں کہ میں اتنی بڑی لکھاری ہوں۔
سلمیٰ اعوان اللہ تمہیں سلامت رکھے او ر تمہارے قلم کو مزید جلا بخشے ۔ آمین۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں