جمعرات کو ایکسپو سینٹر لاہور میں پاکستان ایگریکلچر کولیشن کی کانفرنس ’’ایگری کنکشنز 2024‘‘ کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اس سال چاول کی بمپر فصل سے ہمیں بڑی تعداد میں ڈالر حاصل ہوئے ہیں۔ زراعت کے شعبے میں مضبوط ترقی، گرتی ہوئی افراط زر کی شرح، روپے کی مضبوط قدر، مضبوط ترسیلات زر کی آمد‘ بڑھتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر، اور ایک خوش کن سٹاک مارکیٹ مستحکم میکرو اکنامک اشاریئے ہیں جو ملک کے بہتر معاشی نقطہ نظر کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دوسری جانب رکن قومی اسمبلی میاں غوث محمد کا کہنا ہے کہ پنجاب میں شوگر ملز کے پاس کاشتکاروں کے 20 ارب روپے کے بقایا جات ہیں۔ ان کی گندم بھی فروخت نہیں ہو رہی۔
ایک وقت تھا جب زراعت کو پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستون قرار دیا جاتا تھا۔ اس سے تقریباً 43 فیصد سے زائد لوگوں کا روزگار وابستہ تھا جو کم ہو کر اب37 فیصد رہ گیا ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ نصف صدی سے زراعت کو یکسر نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ ناقص پالیسیوں اور زرعی زمینوں پر تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے نہ صرف زرعی رقبہ کم ہوا بلکہ پاکستان زرعی پیداوار سے بھی محروم ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے پاکستان کو دوسرے ممالک کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ ملک میں زرعی انقلاب کیلئے گزشتہ سال ’’گرین پاکستان اینیشیٹیو‘‘ کے منصوبے کا افتتاح کیا گیا جسے سٹرٹیجک پراجیکٹ میں شامل کیا گیا۔ اس منصوبے میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اہم کردار ادا کیا۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان میں 30 سے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کی جاسکے گی اور سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ قطر‘ بحرین اور چین کے ساتھ مل کر ملکی برآمدات کو بڑھانے کیلئے مختلف زرعی منصوبوں پر کام کیا جائیگا۔ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان میں ایک زرعی نقلاب لائے گا۔دوسری جانب یہ امر انتہائی تشویشناک نظر آرہا ہے کہ پنجاب میں کاشتکاروں کو شوگر ملز کی طرف سے کاشتکاروں کو 20 ارب روپے کے بقایاجات کی تاحال ادائیگی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے صرف پنجاب میں چھ کروڑ کاشتکار مسائل کا شکار ہیں۔ چاول کی بمپر فصل کے بعد گندم کی بھی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ پنجاب میں گندم کی امدادی قیمت 3900 روپے فی من مقرر ہے جبکہ کسانوں کا موقف ہے کہ انہیں مارکیٹ میں گندم کی 3200 سے 3600 روپے فی من کے حساب سے قیمت ادا کی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ سرکاری سطح پر اب تک گندم کی خریداری شروع نہیں کی جا سکی۔ ایک طرف پاکستان میں زرعی انقلاب کیلئے ’’گرین پاکستان انیشیٹیو‘‘ جیسے منصوبے لائے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف کاشتکار دن رات محنت کرکے ملک کو اجناس کی بمپر فصلیں دے رہے ہیں مگر سرکار کی طرف سے قیمت مقرر کرنے کے باوجود انہیں ادائیگی نہیں کی جارہی جو کسانوں کے ساتھ نہ صرف زیادتی کے مترادف ہے بلکہ انہیں اپنی زرعی زمینیں فروخت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو ادراک ہونا چاہیے کہ ایسے اقدامات ’گرین پاکستان‘‘ منصوبے کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
’’ گرین پاکستان‘‘ منصوبے میں حائل رکاوٹیں
Apr 28, 2024