چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان نعمتوں سے مالامال ملک ہے‘ ملکی ترقی کیلئے پاکستانیوں کے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز گرین پاکستان انیشیٹیو کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران کیا۔ راولپنڈی میں منعقد ہونیوالی اس تقریب میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال اور وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی رانا تنویر حسین نے بھی شرکت کی جبکہ سول اور ملٹری حکام بھی اس کانفرنس میں کثیر تعداد میں موجود تھے۔ جنرل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاک فوج پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے ہر ممکن مدد فراہم کرتی رہے گی اور فوج کی کوششیں جامع قومی سلامتی اور قوم کی اجتماعی بھلائی میں کردار ادا کریں گی۔ انکے بقول پاکستان کی ترقی کے سفر میں رخنہ ڈالنے اور توجہ ہٹانے والوں کی تمام کوششیں عوام کے تعاون اور سپورٹ سے ناکام ہونگی۔ ہم سب مل کر ’’ٹیم پاکستان‘‘ ہیں۔ منفی پراپیگنڈا اور سوشل میڈیا ٹرولز ہماری توجہ پاکستان اور اسکے عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کرنے سے نہیں ہٹا سکتے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے سفر میں کسی قسم کا عدم استحکام برداشت نہیں کیا جائیگا۔ انہوں نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آئیے ہم سب مل کر منفی قوتوں کو رد کریں اور اپنی توجہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کے سفر پر مرکوز کریں۔
ہماری سیاسی تاریخ میں 2017ء سے اب تک کا عرصہ ملک کی ترقی و خوشحالی کا سفر روکنے کیلئے سیاسی اور ادارہ جاتی سطح پر باہم گٹھ جوڑ کرنے والوں کے نام سے منسوب ہو چکا ہے جس کے دوران مخصوص مقاصد اور ایجنڈے کے تحت پانامہ لیکس کی آڑ میں 2014ء کی اسمبلی کی منتخب کردہ حکومت کو کمزور کرکے ملک کی معیشت و سیاست کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کی سازش کی گئی جس میں بعض ریاستی اداروں کی قیادتوں نے بھی کردار ادا کیا۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف کو ’’اقامہ‘‘ کا سہارا لے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ اور قومی سیاست سے تاحیات آئوٹ کیا گیا جس کے بعد 2018ء کے انتخابات میں باہم گٹھ جوڑ کے تحت ہی پی ٹی آئی اور اسکے قائد عمران خان کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کی حکمت عملی طے کی گئی۔ عمران خان اور انکی پارٹی نے 2014ء کے انتخابات کے بعد بطور اپوزیشن جماعت بھی ملکی سیاست میں اودھم مچائے رکھا جنہوں نے ریاستی اداروں کی بعض قیادتوں کی آشیرباد کے ساتھ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر تین ماہ تک دھرنا دیئے رکھا اور حکومتی مشینری کو اپاہج بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس دھرنے کے دوران بھی باہمی تال میل کے ساتھ پی ٹی آئی اور اسکی اتحادی عوامی تحریک کے قائدین اور کارکن ایوان صدر‘ وزیراعظم ہائوس‘ پارلیمنٹ ہائوس اور ریڈیو‘ پی ٹی وی کی عمارات میں گھس کر ان ریاستی اداروں پر باقاعدہ حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے رہے جبکہ عمران خان نے عوام کو سول نافرمانی کی بھی ترغیب دی۔
ریاستی اداروں کی بعض قیادتوں کی آشیرباد کے ساتھ ہی جب عمران خان کو وزارت عظمیٰ اور انکی پارٹی کو وفاقی اور صوبائی حکمرانی کی منزل حاصل ہوئی تو ان کیلئے قومی سیاست میں اودھم مچانے اور ملک کو سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی مزید سہولت مل گئی چنانچہ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو کے القاب سے نواز کر اپنے پورے عرصہ اقتدار میں انہیں دیوار کے ساتھ لگائے رکھا اور نیب کو بھی احتساب کے نام پر ان کیخلاف سیاسی انتقامی کارروائیوں کیلئے بروئے کار لایا جاتا رہا۔ اس عرصے کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر فائز ہونیوالی شخصیات جسٹس ثاقب نثار‘ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے اپنے ادوار میں پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں بھرپور معاونت کی۔ اسی طرح بعض دوسری ادارہ جاتی قیادتوں کی سرپرستی بھی اس ایجنڈے کے شامل حال رہی۔ نتیجتاً ملک میں انتشار و خلفشار‘ غیریقینی‘ قیاس اور سیاسی عدم استحکام کی فضا گہری ہوتی گئی جس کے باعث ملک کی تعمیر و ترقی کا سفر بھی رک گیا۔ سی پیک پر کام ٹھپ ہو گیا اور ہمارے دشمن بھارت کو دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا بھی نادر موقع مل گیا چنانچہ بیرونی سرمایہ کاروں نے بھی پاکستان سے ہاتھ کھینچ لیا اور پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف سے بدعہدی کرکے اسے بھی پاکستان کی معیشت پر کاٹھی ڈالنے کا موقع فراہم کردیا۔ اس کا پاکستان کیلئے قرض پروگرام پہلے معطل اور پھر منسوخ ہوا اور پھر اتحادی حکومت کو نئے قرض پروگرام کیلئے آئی ایم ایف کی ہر کڑی اور ناروا شرط من و عن قبول کرنے کی مجبوری لاحق ہوگئی جس کی بنیاد پر آئے روز مہنگائی کے سونامی اٹھا کر عوام کو عملاً زندہ درگور کر دیا گیا۔ اتھل پتھل کی اس سیاست نے ہی نگران سیٹ اپ کو ملکی معیشت کو سنبھالنے کیلئے آئی ایم ایف کا دست نگر ہونے پر مجبور کیا جس نے عوام کو راندہ درگاہ بنانے کی رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ یہی وہ عرصہ تھا جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل سید عاصم منیر آرمی چیف کے منصب پر فائز ہوئے اور پی ٹی آئی کی صفوں میں ایک طے شدہ منصوبے کے تحت فوج کے اندر اپنی قیادت کے ساتھ بغاوت پر اکسانے کی سازش کی گئی۔ اسی منصوبے کے تحت پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں کے ہاتھوں گزشتہ سال 9 مئی کا سانحہ رونما ہوا جس میں پاک فوج کے اداروں‘ عمارتوں اور تنصیبات کو توڑا پھوڑا گیا۔ اس تخریبی سیاست نے بیرون ملک پاکستان کا امیج خراب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جبکہ ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ چنانچہ ملک کی معیشت کو سنبھالنے اور ملک کو سیاسی و اقتصادی استحکام کی جانب گامزن کرنے کیلئے ملک کی سیاسی حکومتی اور عسکری قیادتوں نے باہمی تعاون کا عزم باندھا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے نہ صرف ترقی کے سفر میں افواج پاکستان کی جانب سے حکومت کی معاونت کے عزم کا اظہار کیا بلکہ قومی اور صوبائی اپیکس کمیٹیوں اور گرین پاکستان انیشیٹیو پروگرام میں عملی طور پر شریک ہو کر بھی قومی معیشت کی ترقی کیلئے افواج پاکستان کے عملی کردار کو یقینی بنایا جبکہ قومی ترقی کے اس سفر کو سبوتاڑ کرنے کیلئے اتھل پتھل سیاست کی چیمپئن اسی جماعت کی جانب سے سوشل میڈیا پر افواج پاکستان اور اسکی قیادت کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی قیادت کیخلاف بھی اودھم مچانے اور بے سروپا الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اس سازش میں ملوث عناصر کی قانونی گرفت بھی کی جا رہی ہے اور قوم بھی پاکستان کی ترقی و سلامتی کیخلاف اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے افواج پاکستان کے ساتھ یکجہت ہے۔ آرمی چیف نے گرین پاکستان انیشیٹیو کانفرنس میں ملکی معیشت کے استحکام اور پاکستان کی سلامتی کے اسی قومی جذبے کو اپنے خطاب میں اجاگر کیا ہے۔ بے شک ملک کی ترقی و سلامتی کیخلاف کسی سازش کو پنپنے نہ دینا ہی آج کی قومی ضرورت ہے۔
آرمی چیف کا ملک کی ترقی میں رخنہ ڈالنے کی سازشیں ناکام بنانے کا عزم
Apr 28, 2024