ہماری کم عقلی کا ثبوت (حصہ دوم) 

پچھلے ہفتے ہم نے موت کی خبر اور اس کی رد عمل پہ بات کی۔ جنگ موتہ ہمارے پاس ایک بہترین مثال ہے کہ ہمیں کس طریقے سے لواحقین کے ساتھ اپنا سلوک رکھنا چاہیے۔ جنگ موتہ کی خبر جب نبی کریم ﷺ  تک پہنچی جس میں آپ ؐ خود شرکت فرما نہیں تھے بلکہ صحابہ کرام کو بھیجا تھا۔ اللہ کی رضا سے حضور ﷺ  کے محبوب لے پالک بیٹے حضرت زید رضہ اور محبوب چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضہ اور بہترین صحابی حضرت عبداللہ بن رواحہ رضہ کی یکے بعد دیگرے شہادت ہو گئی۔ یہ دن حضور ﷺکی حیات طیبہ میں غمگین ترین دنوں میں سے ایک دن تھا جب آپ  ان کی شہادت کی خبر سن کے غم کی حالت میں زمین پر گھٹنوں پر بیٹھ گئے۔ 
 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرما رہی تھیں جب رسول ؐ  کو زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے شہید ہو نے کی خبر پہنچی تو رسول ﷺ  اس طرح مسجد میں بیٹھے کہ آپ (کے چہرہ انور) پر غم کا پتہ چل رہا تھا کہا: میں دروازے کی جھری سے دیکھ رہی تھی کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا، اللہ کے رسول ؐ!جعفر (کے خاندان) کی عورتیں۔۔۔! اور پھر اس نے ان کے رونے کا تذکرہ کیا آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ جا کر انھیں روکے وہ چلا گیا وہ (دوبارہ) آپ کے پاس آیا اور بتایا کہ انھوں نے اس کی بات نہیں مانی آپ نے اسے دوبارہ حکم دیا کہ وہ جا کر انھیں روکے وہ گیا اور پھر (تیسری بار) آپ کے پاس آکر کہنے لگا: اللہ کی قسم! اللہ کے رسول!وہ ہم پر غالب آگئی ہیں کہا: ان (عائشہ رضی اللہ عنہا) کا خیال ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: "جاؤ اور ان کے منہ میں مٹی ڈال دو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے (دل میں) کہا: اللہ تیری ناک خاک آلود کرے! اللہ کی قسم! نہ تم وہ کام کرتے ہو جس کا رسول ﷺ  نے تمھیں حکم دیا ہے اور نہ ہی تم نے (باربار بتا کر) رسول ﷺ  کو تکلیف (دینا) ترک کیا ہے۔ (مسلم)
اس حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ نے جو الفاظ استعمال کیے یہ ایک عربی محاورہ کہا جاتا ہے کہ ان کے منہ میں خاک ڈال دو جس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقتا ان کے منہ میں خاک ڈال دی جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے زیادہ کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے کہ مزید کیا کر سکتے ہیں کہ وہ ان کو روک نہیں سکتے سوائے سمجھانے کے۔ اس لیے لواحقین میں سے جب اس طرح کوئی واویلا مچا رہا ہو تو اپنی پوری کوشش کیجئے کہ اپنے الفاظ سے ان کو صبر کی تلقین کریں لیکن وہ پھر بھی آپ سے قابو میں نہ آئیں تو خاموشی اختیار کر لیجئے اور ان کے حق میں اللہ سے صبر کی دعا مانگیے اور اس سے زیادہ انسان کے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ دوسرا جب حضور ؐخود غم کی حالت میں تھے تو صحابی بار بار آکے ان کو رونے کی خبر دے رہے تھے اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے ان لوگوں کا بھی خیال کرنا چاہیے جو غم سے گزر رہے ہوں بلاوجہ ان کو مزید تکلیف نہ دی جائے غیر ضروری معاملات میں الجھا کر۔
پھر تین دن کے بعد حضور کریم ﷺ حضرت جعفر رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تشریف لائے ان کے بچوں اور ان کی اہلیہ سے ملنے۔ حضور ؐ  نے صحابہ کرام کو کہا کہ ان کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کیا جائے۔ جب آپ  ان کے گھر پہنچے تو آپ  نے فرمایا کہ آج کے بعد کوئی میرے بھائی جعفر کے لیے نہیں روئے گا۔ آپ نے جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے اولاد کو بلایا حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ جن کی عمر اس وقت غالبا چھ سے سات سال تھی خود فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی کریم ﷺ  سے ملے تو ہمارے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آپ نے حجام کو بلوایا اور ہمارے بال کٹوائے۔ پھر حضور نے جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد سے کچھ بات چیت کی ان کا دل ہلکا کرنے کے لیے اور پھر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دعا دی کہ یا اللہ جعفر کی اولاد اور اس کے خاندان کے اوپر رحمت کر اور ان کے کام میں برکت عطا فرما۔ یہاں سے ہم سیکھتے ہیں کہ لواحقین کے گھر کھانا بنا کر بھیجنا بھی سنت ہے۔ خصوصا قریب کے لوگوں کے لیے دوسرا اہم نقطہ جو ہمارے نظر میں ہونا چاہیے وہ یہ کہ میت کے جانے کے شروع کے تین دن میں آپ زبردستی صحیح رویوں پر عمل نہیں کروا سکتے جیسا کہ حضور ؐ نے خاموشی اختیار کی اور تین دن بعد جاکر حالات کو درست کیا کیونکہ غم کی شدت بہت سے لوگ اپنے ہوش قائم نہیں رکھ سکتے۔ اور اس وقت ان کی سمجھ بوجھ کام نہیں کرتی۔ 
تعزیت کے لیے جانا اور حوصلہ افزائی کرنا اور دعا دینا ہی بہترین عمل ہے جس کا مقصد احساس دلانا ہے کہ آپ کے دکھ درد میں ہم شریک ہیں۔
جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کی تو اس کو بھی اس مصیبت زدہ کے برابر ثواب ملتا ہے۔ (ترمذی)
تعزیت کے لیے "افسوس" کا لفظ استعمال کرنا غلط ہے۔ اپنے الفاظ سوچ سمجھ کے استعمال کیجئے کیونکہ خدانخواستہ یہ خدا سے شکوے کا باعث نہ بنیں۔ کیونکہ رب تعالی رحیم ہے اور وہ کسی کے اوپر ظلم نہیں کرتا۔ افسوس کا مطلب یہ ہوا کہ نعوذ باللہ آپ کے ساتھ غلط حادثہ پیش آگیا ہے۔ بلکہ یہ کہہ دیجئے کہ فلاں کی وفات کا سننا ان کی درجات بلندی کے لیے دعا ہے۔ یا کوئی بھی مناسب اور الفاظ استعمال کیجئے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا ،جنازوں کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا‘‘۔ (بخاری)۔
کسی مسلمان کا جنازہ پڑھنے کی ایک فضیلت یہ ہے کہ جنازہ پڑھنے والے کو  ایک قیراط کے بقدر اجر ملتا ہے اور ایک قیراط کی مراد خود احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ وہ ’’اْحد‘‘  پہاڑ کے بقدر ہوگا۔ نیز جس میت کا جنازہ پڑھا جارہا ہے، تو اگر جنازہ پڑھنے والے چالیس یا اس سے زائد افراد ہوں تو اللہ اس میت کے حق میں ان جنازہ پڑھنے والوں کی سفارش کو قبول فرما لیتے ہیں۔ (مسلم) سبحان اللہ 
عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے فرمایا کہ صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا ‘ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے(کہ کیا اچھا آدمی تھا) تو رسول ؐ  نے یہ سن کر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے نبی کریم ﷺ  نے پھر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔
سنت کے مطابق جس نے کسی میت کو غسل دیا اس کی امانت کو ادا کیا اور اس کے عیب کو چھپایا تو وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہوگا جیسے اس کی ماں نے اس کو اج جنا ہے- (احمد)
 فرمایا کہ "اپنے مردوں کی اچھی باتیں بیان کیا کرو اور برائی سے زبان بند رکھا کرو"۔ (ابو داؤد)
اگر کسی میت کو چار یا تین یا دو شخص بھی اچھا کہہ دیں تو اللہ تبارک و تعالی اس کو بخش دیتا ہے۔ (صحیح بخاری)
آخر میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ میں نے خاص مصلحت کے تحت تم کو قبر کی زیارت سے منع کر دیا تھا- قبروں کی زیارت کیا کرو اس سے موت یاد آتی ہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے"- (ابن ماجہ)
اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کا خاتمہ بل خیر کرے۔ موت کے وقت کلمہ شہادت نصیب کرے اور زندگی کے ہر معاملے میں سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن