rz26-1/
آج بابا کرمو کا موڈ پہلے جیسا نہیں تھا، وہ بغیر سلام دعا کے بولتے رہے۔ ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ انسان چاند پر پہنچ چکاہے۔ فضا میں ہوائی جہاز سے نیچے دیکھ کر بتایا جا سکتا ہے کہ فلاں شخص کون سااخبار پڑھ رہا ہے۔ پہلے سے بتا چل جاتا ہے چاند کس ملک میں کب طلوع ہو گا؟ یہ بھی بتا رکھا ہے کہ ایٹم بم کے استعمال سے ایک ہی وقت میں کتنے انسان اور چرند پرند فنا ہو جائیں گے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ اسلام آباد سے نیویارک کا ہوائی سفر کتنے گھنٹوں میں ہوتا ہے۔لوکیشن ڈالنے پر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اجنبی راستوں سے گزر کر اپنی منزل تک کتنی دیر میں پہنچیں گے؟ ان سب باتوں کے بعد بھی ہمیں نہیں معلوم کہ دنیا سے خالی ہاتھ جائیں گے پھر ہر کام کا مرنے کے بعدحساب ہوگا۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم ملک میں آئین ہے قانون ہے جمہوریت ہے آزادی ہے!! ہر چناؤ کے بعد ہارنے والے کہتے ہیں یہاں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی سیاسی جماعت جو اقتدار میں ہے۔ اس کے ٹکٹ ہولڈر اس الیکشن سے خوش نہیں ہیں اس لیے کہ یہ ہار چکے ہیں۔ یہ اپنی ہار میں میاں نواز شریف کو بھی شامل کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی ''ہاتھ ''ہوا ہے انہیں چوتھی بار وزیراعظم بننے نہیں دیا گیا۔ سیاست دان ہی نہیں سب کنفیوز ہیں۔اسلئے کہ یہ سچ نہیں بولتے۔موجودہ صورتحال کو دیکھنے سے قبل ایک نظر ماضی میں بھی ڈال لیا کریں تو پھر ایسی باتیں ایسے الزام نہیں لگائیں گے۔ دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا تھا کیا وہ سلیکشن نہیں تھی آج جو کچھ ہوا ہے وہ بھی ویسا ہی ہوا ہے جیسے ہوتا آیا ہے۔ اس لئے کہ ایسا ہی پچھہتر سال سے ہو رہا ہے۔ سینٹر عرفان صدیقی میڈیا پر بتا چکے ہیں کہ نوازشریف کا اس بار پھر سے وزیراعظم بنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مجھے الیکشن سے پہلے یہ بتا چکے تھے۔اب اس پر یقین کر لینا چائیے تھا مگر نہیں کرتے، میڈیا کنفیوزن پھیلانے سے باز نہیں آرہا۔ یہ دکھائی دیتا ہے کہ حکمرانوں نے مشکل راستے پر چلنے کا ارادہ اپنے تجربات کی روشنی میں کر لیا ہے۔ ڈو مور کرتے کرتے اب ایران کو گلے لگا کر نو مور بھی کر دکھایا ہے۔میاں نواز شریف چین روانہ ہوئے۔چاہتے تو امریکا چلے جاتے۔یاد رہے اگر ہم نے مشکل ترین گھٹن راستے پر چلنا شروع کر دیا ہے تو اس کا کریڈٹ جہاں موجود سیاست دانوں کو جاتا ہے وہاں امریکا کو بھی جاتا ہے جس نے پاکستان جیسے خطے کے اہم ملک کو دیوار کے ساتھ لگانا شروع کر رکھا تھا۔ یاد رکھے امریکا بھارت دوستی سے فیض یاب نہیں ہوسکے گا جتنا پاکستان سے ہوتا رہا ہے۔ ایسا یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ ہمارے یہ حکمران سیاست دانوں نے اپنے ماضی کے تجربات کی سیکھا ہے ۔اب عام آدمی اور ہمارے سیاست دان بھی حکمرانوں کا ساتھ دیں۔دو نمبری کرنا بند کرے۔ اس دھرتی کو اپنی ماں سمجھیں۔کم تولنا ملاوٹ کرنا جھوٹ بولنا بند کریں۔پھر کوئی مشکل نہیں ہے یہ مٹی بڑی زرخیزہے۔ اللہ نے اس پاک سرزمین کو سب کچھ عطا کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنے اپ کو اس پاک سرزمین پر پاک رکھ کر زندگیاں گزارنا ہونگی۔کاش یہ عالمی قوتیں جتنا انسانوں کی تباہی کے منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں اس سے آدھا ہی انسانی بھلائی کے کاموں پر بھی خرچ کرنا شروع کردیں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ میں نے وقفہ ملتے ہی بابا کرمو سے پوچھ لیا !! ان باتوں کو مجھے بتانے کی کیوں ضرورت آپ کو پیش آئی؟ مسکرا کر کہا اس لیے کہ ایک تم ہی تو ہو جو مجھے سنتے ہو۔ برداشت کرتے ہو۔کہا اگر آپ مزید سوال کرنے بند کر دیں تو باقی کی گوش گزار کروں پھر میرے سر کے ہلانے سے کہا آج سے چھ سال پہلے جو پودا اتفاق سے لگا تھا اسے دیکھ کر آیا ہوں خوب پھل پھول رہا ہے۔ پھر اس کی داستان سناتے ہو? کہا میں ایک روز روٹین کے چیک آپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گیا۔ کلینک کے باہر کوڑا اٹھانی والی معصوم بچی نے مجھ روک کر پوچھا بابا جی کیا آپ ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں۔ مجھے اس کے اس سوال کرنے کا یقین نہ تھا میں تو سمجھ رہا تھا یہ کچھ پیسے مانگے گی۔ اس بچی نے مجھے اپنی مٹھی کھول کر دکھائی کہ میرے پاس ڈاکٹر صاحب کو دینے کو فیس کے کچھ پیسے ہیں ۔ میں بھی بیمار ہو۔ میری ساری فیملی کو ایک جیسی بیماری لاحق ہے۔ میں نے اس بچی سے پوچھا کیا بیماری ہے کہا یہ میں ڈاکٹر صاحب کو ہی بتاؤں گی بس آپ مجھے اپنے ساتھ ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ۔پھر میں نے اسے اپنی باری کے آنے پر اس بچی کو ڈاکٹر کے پاس اندر ساتھ لے گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بچی سے پوچھا بیٹا کیا آپ کو بخار ہے۔ بچی نے کہا نہیں، پھر پوچھا کیا کوئی کھانسی ہے، کئی درد ہے۔کہا نہیں ڈاکٹر صاحب۔ مجھے اور میری فیلی کو ایک ہی بیماری ہے۔ ہمیں پہلے آہستہ بھوک لگتی ہے پھر اس میں وقت کے ساتھ شدت آجاتی ہے، زور کی بھوک لگتی ہے پھر ہم مٹھی گھاس تک کھا جاتے ہیں ۔ لوگ کھانا کھانے کو نہیں دیتے۔پولیس والے مارتے ہیں۔لہذا مجھے اج ایسی ہی دوا آپ دیں جس سے ہمیں بھوک نہ لگے۔ یہ میں نے کچھ پیسے مانگ کراکھٹے کر رکھیں ہیں یہ آپ کی فیس ہے آپ یہ لے لیں لیکن مجھے بھوک نہ لگنے والی دوا ضرور دیں۔ اگر اس سے فائدہ ہوا تو اپنے گھر میں موجود دو چھوٹے بہن بھائیوں اور والدہ کو بھی یہی دوا دے دیا کروں گی ۔ ڈاکٹر نے میری طرف دیکھا تو جو آنکھیں میری نم تھیں ویسے ہی ڈاکٹر صاحب کی نم تھی۔ڈاکٹر نے کہا بیٹا سائنسدانوں نے دوا ایجاد کر رکھی ہے ۔یہ کیپسول کی شکل میں موجود ہے مگر بہت مہنگی ہے جو عام ادمی کی پہنچ سے دور ہے۔ اس کا استعمال چاند پر جانے والے لوگ کرتے ہیں ۔انہیں اس کے کیپسول کھانے سے بھوک پیاس نہیں لگتی۔ توانائی بھی ملتی ہے۔ آپ کو جو بھوک کی بیماری ہے اس کا حل یہ ہے میرا سرونٹ کوارٹر خالی ہے تم اپنی فیملی کو ہمارے ساتھ شفٹ کر دو۔ وہاں میں تین وقت کی دوا سب کو دیا کروں گا۔ ایسا کرنے سے آپکی یہ بیماری ٹھیک ہو جائے گی۔ بچی نے پوچھا یہ دوا ہم کب تک کھائیں گے۔ مسکرا کر کہا جب تک آپ ٹھیک نہیں ہو جاتے!! ڈاکٹر صاحب نے اپنے آفس بوائے کو کہا اس بچی کے ساتھ جاؤ اور اس کی فیملی کو میرے گھر میں شفٹ کردو۔ اس وقت کا کھانا بھی انہیں دو۔ مجھے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ اس نیک کام میں میرا وسیلہ بنے ہیں۔آج کے بعد آپکومیں گھر کا فرد سمجھ کر فری میں نسخہ دیا کرونگا۔ کہا انشااللہ اس بچی کو ڈاکٹر بناؤں گا۔بہت ذہین بچی ہے۔اس میں خداداد صلاحیت ہیں۔ ویسے بھی میری کوئی اولاد نہیں۔ آج کے بعد یہی میری فیملی بھی ہے۔وہ دن اور آج کا دن ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ اپنا بھائی سمجھا۔ آج کافی عرصے کے بعد مجھے ڈاکٹر صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو کیا دیکھتا ہوں بچے مولانا صاحب سے پڑھ رہے ہیں۔ بچوں نے مجھے دیکھ کر سلام کیا خوش ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ تینوں بچے سکول بھی جا رہے ہیں۔ بچوں سے زیادہ ڈاکٹر صاحب خوش تھے۔ان سے زیادہ آج میں خود بھی خوش تھا۔کہا جینے کی وجہ ڈھونڈا کرو مر تو ایک دن ہم نے ویسے بھی جانا ہے ۔
جئے تو ایسے کہ خود زندگی کو رشک آئے
مرو تو موت کہے کون مرگیا یارو…!!