رمضان کی ستائیسویں شب اور ایوان قائداعظم

ایوان قائداعظم کی تعمیر قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہو جانی چاہئے تھی اگر یہ قومی فریضہ صحیح وقت پر ادا کر دیا جاتا تو قائداعظم کے اصلی پاکستان میں چٹاگانگ سے لیکر کراچی اور پشاور تک ملک کے ہر بالغ اور باشعور فرد کے دل و دماغ میں اس نظریاتی حقیقت اور تاریخی شعور کو پیوست کر دیا جاتا جس کے تحت یہ مملکت وجود میں آئی۔ اب تک بانی پاکستان کی حیات اور عظیم و الشان کارنامے پر پاکستانی سکالروں کی کئی تحقیقی کتب شائع ہو چکی ہوتیں۔ بین الاقوامی جرائد میں وقیع مقالے چھاپنے کا سلسلہ جاری رہتا نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ بیرونی دنیا میں بیسوی صدی کے اس عظیم کارنامے اور اسے سرانجام دینے والی شخصیت کے بارے میں مستند معلومات اور حقیقی شعور بیدار ہو چکا ہوتا۔ بلکہ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ پہنچتا کہ ہم جو پاکستان کے بنیادی نظریے اسلام اور جمہوریت سے بہت دور چلے گئے تو قوم شاید ایک بہت بڑے نظریاتی بحران سے بچ جاتی ممکن ہے ایسی صورت میں 1971ءکے المیے کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آج کے حالات سے بھی جہاں ہر سو ذہنی خلفشار پایا جاتا ہے۔ بچا جا سکتا تھا۔
آج جو 27 رمضان المبارک ہے مملکت خداداد اسی مبارک شب کو وجود میں آئی تھی۔ تو رمضان کے اسی مہینے میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیراہتمام جناب مجید نظامی کی دعوت اور ایماءپر لاہور میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ہاتھوں ایوان قائداعظم کی مجوزہ‘ شاندار و بلند و بالا عمارت کی تعمیر کے کام کے آغاز دیرآید درست آید کا حکم رکھتا ہے۔ وزیراعظم نے اس قومی منصوبے کی تکمیل کی خاطر دو سال پہلے بیس کروڑ روپے کا عطیہ دیا تھا تعمیراتی کام کی کھدائی کی تقریب کے دوران مزید پانچ کروڑ کا اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جو صوبہ سندھ کے شہر بدین میں بارش میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی مدد کی خاطر تقریب سے جلدی چلے گئے تھے ان کے بارے میں بتایا گیا کہ موصوف نے پہلے زمین کے حصول کے حوالے سے تعاون کیا۔ پھر مجوزہ عمارت کی تعمیر کی راہ میں قانونی و تکنیکی رکاوٹوں کو دور کرنے میں براہ راست مدد کی۔ حق یہ ہے کہ دونوں حضرات نے احسان نہیں کیا بلکہ ایسا فرض ادا کیا ہے جو حکمرانوں کی جانب سے قوم و ملک پر قرض تھا۔ ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس منصوبے کی تکمیل کے آخری مرحلے تک ضروری مالی اور دوسری مدد فراہم کرتی رہیں کیونکہ یہ منصوبہ اب مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہوا جا سکتا۔
جیساکہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین جناب مجید نظامی اور وائس چیئرمین ڈاکٹر رفیق احمد نے اپنی تقاریر میں واضح کیا ایوان قائداعظم کی تعمیر کے منصوبے کے پیش نظر صرف بانی پاکستان کے شایان شان اور ان کے نام سے منصوبہ ایک پرشکوہ عمارت کھڑی کرنا مقصود ہیں۔ بلکہ اصل نسب العین ایک بڑے علمی و معلوماتی مرکز اور تربیتی یونیورسٹی کو وجود میں لانا ہے جہاں ایک جانب عام پڑھے لکھے پاکستانی شہری کی خاطر قائداعظم کی شخصیت پر ٹھوس اور مستند معلومات فراہم کرنے اور قیام پاکستان کے بارے میں نظریاتی آگہی بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ اس مقصد کیلئے ملک میں بولی اور سمجھے جانے والی تمام زبانوں میں ضروری لٹریچر اور جدید ترین سمعی و بصری آلات نصب کئے جائیں گے تو دوسری جانب پاکستان میں پہلی مرتبہ صحیح معنوں میں ایک تربیتی یونیورسٹی بھی وجود میں لائی جائے گی جس کے ذریعے ملک بھر اور بیرونی دنیا سے آئے ہوئے سکالروں پر برصغیر میں بپا ہونے والی آزادی کی تحریکوں اور ان میں منفرد ترین قیام پاکستان کی شاندار جدوجہد سے متعلقہ اصل اور معروضی حقائق پر علمی اور تحقیقی کام کی راہیں کشادہ کی جائیں گی۔ بہترین اور جدید سہولیات سے آراستہ لائبریری ہو گی۔ مختلف پہلو¶ں پر کتابیں لکھی جائیں گی۔ سیمینارز کا اہتمام ہو گا۔ پاکستان میں پروان چڑھنے والی نئی نسل اور بیرونی دنیا کے صاحبان علم اور پالیسی سازوں کو اس ملک اور اس کے بانی کے بارے میں درست حقائق سے روشناس کرایا جائے گا۔ مخالفانہ پراپیگنڈے کا تدارک کیا جائے گا۔ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گا۔ یہ تمام تر مساعی کامیاب ہو گئیں اور کوئی وجہ نہیں کہ نہ ہوں تو سب سے بڑے نتیجے کے طور پر پاکستان کی نئی نسلوں میں جو سخت ابہام پایا جاتا ہے وہ دور ہو گا۔ اذہان و قلوب میں نظریہ پاکستان کی کہکشاں علم و شعور کی روشنی بھی پھیلائے گی اور دل و دماغ کے لئے آسودگی و ٹھنڈک کا کام دے گی۔ آج 27 ویں رمضان کو یہ سطور لکھتے ہوئے بڑا اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ اس مبارک مہینے میں ایک اہم اور ضروری کام کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن