این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم کو عدالت ِ عظمیٰ سے تین ہفتے کی مہلت
سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے این آر او عملدرآمد کیس میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو جاری کردہ اظہار وجوہ کے نوٹس پر کارروائی کے دوران وزیراعظم کی استدعا پر انہیں 22 دن کی مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کر دی اور وزیراعظم کو اس روز دوبارہ عدالت میں طلب کرلیا۔ گزشتہ روز دوران سماعت وزیراعظم پرویز اشرف حکومتی اتحادی جماعتوں کے قائدین چودھری پرویز الٰہی‘ بشیربلور‘ حاجی عدیل اور وفاقی کابینہ کے ارکان کے ہمراہ فاضل عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ وہ عدالت کے احترام میں عدالت کے روبرو پیش ہوئے ہیں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وہ عدالت کے روبرو ملزم کی حیثیت سے نہیں آئے بلکہ وہ ایک باوقار قوم کے باوقار وزیراعظم ہیں تاہم انکے محض عدالت میں پیش ہونے سے عدالت کے احترام کا تقاضا پورا نہیں ہوتا‘ عدالت کے احترام کا تقاضا اس کے فیصلہ پر عملدرآمد کا بھی ہے جس سے گزشتہ اڑھائی سال سے گریز کیا جا رہا ہے۔ اس پر وزیراعظم نے فاضل عدالت کو یقین دلایا کہ وہ سنجیدگی سے اس مسئلہ کا مثبت حل نکالنے کی کوشش کرینگے۔ انہیں وزیراعظم بنے ابھی دو ماہ ہی گزرے ہیں‘ جبکہ انہیں قانونی معاملات کا زیادہ علم بھی نہیں۔ فاضل عدالت نے اس پر وزیراعظم کو باور کرایا کہ وہ اپنے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل سے مشاورت کر سکتے ہیں تاہم انہوں نے آج عدالتی احکام کی تعمیل میں سوئس حکام کو خط لکھنے کا یقین نہ دلایا تو پھر قانون اپنا راستہ اختیار کریگا۔ ہمیں وزیراعظم تبدیل کرنے کا شوق نہیں‘ مگر ہمارے پاس عدالتی حکم پر عملدرآمد کرانے کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں۔ آپ خط لکھنے کا وعدہ کریں‘ آئندہ انتخابات تک آپ ہی وزیراعظم رہیں گے۔ اس پر وزیراعظم نے چھ ہفتے کی مہلت طلب کی اور بتایا کہ انہوں نے بیرون ملک کے دوروں پر جانا ہے‘ جبکہ وہ حکومتی اتحادیوں اور وفاقی کابینہ سے بھی مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے انہیں باور کرایا کہ وہ یقین دہانی کرا دیں‘ وہ کسی شخص کو خط لکھنے کا اختیار دے رہے ہیں‘ اسکے بعد وہ بے شک بیرون ملک دوروں پر چلے جائیں‘ اس موقع پر وزیراعظم نے کیس کی سماعت 16 ستمبر تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پر فاضل عدالت نے باہمی مشاورت سے کیس کی مزیدسماعت کیلئے 18 ستمبر کی تاریخ مقرر کر دی۔
این آر او عملدرآمد کے جس کیس میں ایک وزیراعظم کو عدالتی احکام کی عدم تعمیل پر قید اور نااہلیت کی سزا مل چکی ہے‘ اسی کیس میں دوسرے وزیراعظم کو دوسری بار طویل مہلت کا ملنا بادی النظر میں وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی حکمت عملی کی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے تاہم سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملہ میں عدالتی احکام کی عدم تعمیل کی صورت میں قید اور نااہلیت والی سزا کے خطرے کی تلوار بدستور وزیراعظم کے سر پر لٹکتی رہے گی اور اگر آئندہ تاریخ سماعت پر انہوں نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملہ میں کسی عملی پیش رفت سے عدالت کو آگاہ نہ کیا تو اسی روز انکے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی والے انجام کا آغاز ہو جائیگا۔ اگرچہ وزیراعظم نے اب تک بذاتِ خود ایسا کوئی بیان نہیں دیا‘ نہ کوئی ایسا اقدام اٹھایا ہے جس سے عدالتی احکام کی تعمیل سے انکار یا توہین عدالت کا کوئی پہلو نکلتا ہو‘ تاہم حکمران پیپلز پارٹی کے بعض عہدیداروں‘ وفاقی وزراءاور ارکانِ اسمبلی و سینٹ کی جانب سے عدلیہ کو تضحیک کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جا رہا۔ بالخصوص سینیٹر سید فیصل رضا عابدی اور گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ عدلیہ کو بطور ادارہ بھی اور چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کو ذاتی طور پر بھی نشانہ بنائے ہوئے ہیں جس سے عدلیہ کے بارے میں حکمران پیپلز پارٹی کی اجتماعی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر گزشتہ روز دوران سماعت فاضل عدالت عظمیٰ نے بھی وزیراعظم کو باور کرایا کہ انکے گورنر اور وزراءتوہین آمیز بیانات دے رہے ہیں۔ وہ انہیں سمجھائیں کہ ایسے بیانات سے گریز کیا جائے۔
اگرچہ وزیراعظم نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملہ کا کوئی مثبت حل نکالنے اور غیریقینی کی صورتحال ختم کرنے کا فاضل عدالت کو یقین دلایا ہے تاہم اس سلسلہ میں حکمران پیپلز پارٹی کی کورکمیٹی کے اجلاس میں جو فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے‘ اس میں ردوبدل کا کوئی امکان نظر نہیں آتا‘ جس کا عندیہ سپریم کورٹ کے روبرو کیس کی سماعت کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ کی میڈیا سے ہونیوالی گزشتہ روز کی اس گفتگو سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جس فیصلے سے حکومت سید یوسف رضا گیلانی کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کے موقع پر عدالت عظمیٰ کو آگاہ کر چکی ہے۔ اب اسے کیونکر تبدیل کیا جا سکتا ہے‘ گویا سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کا حکومتی فیصلہ اٹل ہے اس صورت میں موجودہ وزیراعظم کا بھی اپنے پیشرو وزیراعظم والے انجام سے دوچار ہونا یقینی ہے کیونکہ یہ قانونی اور آئینی تقاضا ہے جس کے بارے میں عدالت وزیراعظم کو پہلے ہی باور کراچکی ہے کہ عدالتی احکام پر عملدرآمد کرانے کے سوا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔
اس تناظر میں سینئر قانونی اور آئینی ماہرین کی جانب سے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر حکومت سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے فیصلہ پر ہی کاربند ہے تو وزیراعظم پرویز اشرف اس معاملہ کا مثبت حل نکالنے کی یقین دہانی کراکے کیا عدالت کو دھوکہ نہیں دے رہے اور اگر انہوں نے ایسی کسی دھوکہ دہی سے عدالت سے مہلت حاصل کی ہے تو پھر آئندہ تاریخ سماعت پروہ خود کو قانون اور انصاف کی عملداری سے کیسے بچا پائیں گے؟ آخر عدلیہ کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کب تک جاری رہ سکتا ہے۔ آج وزیراعظم اظہار وجوہ کے نوٹسوں پر مدعا علیہ کی حیثیت سے عدالت کے روبرو پیش ہوئے ہیں تو کل کو وہ عدالتی احکام کی عدم تعمیل پر اپنے پیشرو کی طرح ملزم بن کر عدالت جائینگے‘ فرد جرم کا سامنا کرینگے اور مجرم کی حیثیت میں باہر نکلیں گے۔ پھر کیا انہوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کا محض دورانیہ بڑھانے کیلئے عدالت سے مہلت طلب کی ہے؟ جبکہ انکے پاس صرف دو ہی راستے ہیں‘ وہ عدالتی احکام کی تعمیل کرتے ہوئے صدر زرداری کیخلاف منی لانڈرنگ کے کیس کھلوانے کیلئے سوئس حکام کو خط لکھ دیں اور عدالت عظمیٰ کی یقین دہانی کےمطابق آئندہ انتخابات تک وزیراعظم کے منصب پر فائز رہیں یا توہین عدالت کی کارروائی کا سامنا کریں اور سزا پا کر گھر چلے جائیں۔ اسکے سوا کوئی تیسرا قانونی آپشن انکے پاس موجود نہیں البتہ تیسرا سیاسی آپشن انکے پاس ضرور موجود ہے کہ وہ اپنے دورہ چین سے واپسی پر توہین عدالت کیس میں عدالت عظمیٰ کی متعین کردہ 18 ستمبر کی تاریخ سماعت سے پہلے ہی صدر مملکت کو آئینی مشورہ دے کر اسمبلی تحلیل کر دیں اور نئے انتخابات کیلئے عوام کے پاس چلے جائیں۔ اس حوالے سے وہ پہلے ہی بیان دے چکے ہیں کہ اب انتخابات کی منزل زیادہ دور نہیں اسلئے ممکن ہے اسی حکمت عملی کے تحت وہ عدالت سے چھ ہفتے کی مہلت طلب کر رہے ہونگے جس پر انہیں تین ہفتے کی مہلت تو مل گئی ہے۔
اس مہلت کے دوران اگر حکومت اور حکمران پیپلز پارٹی سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرتی ہے اور پارٹی اور حکومتی عہدے داروں کو عدلیہ پر مزید گند اچھالنے اور چیف جسٹس کی ذات کو تنقید و تضحیک کا نشانہ بنانے سے روک دیا جاتا ہے تو اس سے یقیناً سیاسی کشیدگی کی فضاءمیں خوشگوار تبدیلی پیدا ہو جائیگی اور پھر انتخابی ماحول کی گرماگرمی میں عدلیہ کےساتھ محاذ آرائی والی تلخیاں بھی چھٹ سکتی ہیں۔ تاہم عدلیہ کےساتھ محاذ آرائی کی پالیسی ہی برقرار رکھی گئی تو اسکے نتائج حکومت کیلئے تو یقیناً اچھے نہیں نکلیں گے جبکہ یہ صورتحال پورے سسٹم کو لپیٹنے کی فضا بھی ہموار کر سکتی ہے۔ اس تناظر میں حکومت کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے دی گئی مہلت کا مثبت فائدہ اٹھاتے ہوئے آئندہ انتخابات میں خود کو عوام کےلئے پھر قابل قبول بنانے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے جو عدلیہ کے حقیقی احترام سے ہی ممکن ہے۔ اگر اب حکمران پیپلز پارٹی نے عقل و خرد کی راہ اختیار نہ کی تو پھر اسکی ”دمادم مست قلندر“ کی پالیسی اسے سیاسی نقصان ہی پہنچا ئے گی۔
رمزے کلارک عافیہ صدیقی
کی رہائی کیلئے کوشش کریں
امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی پاکستان کی معصوم شہری ہے جس کےساتھ بہت ناانصافی ہوئی، عافیہ کو عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا، رہائی کیلئے امریکہ میں لوگوں کو اکٹھا کروں گا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے عافیہ موومنٹ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی گزشتہ9 سال سے امریکہ میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے، انسانی حقوق کے علمبردار اور خواتین کے حقوق کی ٹھیکیدار این جی اوز نہ جانے عافیہ صدیقی پر ڈھائے جانےوالے مظالم پر کیوں خاموش ہیں؟ صرف اس بنا پر کہ وہ مسلمان خاندان کی چشم و چراغ ہے۔سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک کے بقول عافیہ کو عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے، رمزے کلارک نے کراچی میں سیمینار سے خطاب کے دوران پاکستانیوں کو یقین دہانی تو کروائی ہے کہ وہ واپسی پر عافیہ کیلئے لوگوں کو اکٹھاکرکے آواز بلند کرینگے، امریکی حکومت نے صرف فرضی شواہد کی بنا پر عافیہ کی سزا سنائی ہے۔ امید ہے امریکی عوام عافیہ کو بے گناہ سمجھتے ہوئے اسکی رہائی کی کوششیں کرینگے، امریکی حکام کم از کم اپنے عوام کی ہی آواز پر عافیہ کو رہا کر دیں۔
امریکہ کی حقانی گروپ کو پیشکش
ایک امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکہ حقانی گروپ کو امن کے بدلے تین افغان صوبوں پکتیا، پکتیکا اور خوست کا کنٹرول دینے کو تیار ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان اور امریکہ مکمل شکست نہیں دے سکتے۔ ہم تو بات چیت کیلئے تیار ہیں وہ آگے نہیں آ رہے۔ اسلام آباد ممکنہ جوابی حملوں کے خدشہ سے کارروائی نہیں کر رہا۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان نتائج سے بے پروا ہو کر کارروائی کرے۔
حقانی گروپ کی افغانستان میں پاکستانی سرحد سے ملحقہ مذکورہ تین صوبوں کےساتھ ساتھ چوتھے صوبے ہرات میں بھی عملداری ہے۔ امریکہ اس کو قانونی شکل دینے کیلئے حقانی نیٹ ورک سے تعاون حاصل کرنا چاہیے۔ امریکہ کا دہرا معیار ملاحظہ فرمائیے کہ ایک طرف وہ حقانی نیٹ ورک سے مذاکرات کا متمنی ہے دوسری طرف وہ پاکستان کو نتائج سے بے نیاز ہو کر کارروائی کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ حالانکہ خود ہی اعتراف بھی کر رہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان مل کر بھی حقانی نیٹ ورک کو شکست نہیں دے سکتے۔ جب امریکہ کو حقانی گروپ سے ٹکراﺅ مول لینے کے خطرات کا اندازہ ہے تو پاکستان کو اسکے ساتھ لڑنے کیلئے کیوں مجبور کیا جا رہا ہے جب آپ طالبان کے ایک گروپ کو شکست نہیں دے سکتے تو طالبان کی متحدہ قوت کو کیسے زیر کر سکتے ہیں؟ اسلئے بہتر یہی ہے کہ جس طرح حقانی گروپ کو امن کے بدلے تین صوبوں کا کنٹرول دینے کی پیشکش کی، اسی طرح تمام افغان سٹیک ہولڈرز کو بھی ان صوبوں کو کنٹرول دےدیا جائے جن میں انکی عملداری ہے اور اسکے ساتھ ہی افغانستان سے انخلا کا جتنا جلد ممکن ہے انخلا کرکے معاملات کو کنفیوژ کرنے کے بجائے افغانستان کی اصل قوت کے حوالے کر دیئے جائیں۔
پارلیمنٹرین کا ”کامیاب“ دورہ بھارت
پاکستان کا پارلیمانی وفد بھارت کے پانچ روزہ دورے کے بعد وطن واپس پہنچ گیا۔ وفد کے سربراہ سینیٹر جہانگیر بدر نے کہا کہ آبی جارحیت، کشمیر، سرکریک اور سیاچن جیسے مسائل پر اس دورے میں بات چیت نہیں ہوئی یہ آئندہ دورے کا ایجنڈا ہو گا۔ وفد کے شرکاءنے دورے کو کامیاب قرار دیا۔
پارلیمنٹرین کے دورے کے اخراجات حکومت کے ذمے تھے وہاں آﺅ بھگت اور خاطر مدارت بھی خوب ہوئی، واپسی پر ٹی اے، ڈی اے بھی ملے گا۔ اس حوالے سے تو پارلیمنٹرین کا یہ دورہ کامیاب رہا۔ حاجی عدیل کا کہنا ہے کہ بھارت کو باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان دہشت گردی کا مرکز نہیں وہ تو خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ بھارت تو خود پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ حاجی عدیل کے دلائل کا اسکی صحت پر کیا اثر ہو گا؟ دورے سے واپسی پر گوجرانوالہ کے پرانے مسلم لیگی غلام دستگیر خان کے فرزند خرم دستگیر کچھ زیادہ ہی جذباتی نظر آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ دونوں ممالک میں امن کی خواہش یعنی آشا موجود ہے۔ پانی کے مسائل اور مسئلہ کشمیر کے باوجود خواہش ہے کہ خطے میں امن ہو۔ دونوں ممالک میں بات چیت جاری رہنی چاہیے۔ 65 سال سے مسئلہ کشمیر پر بات چیت جاری ہے اس سے کیا حاصل ہوا؟ بنیادی اور بڑا تنازع مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت اسکے پرامن حل پر تیار ہی نہیں۔ وہ تو کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے پھر یہ حل کیسے اور کب ہو گا؟ ڈیڑھ لاکھ کشمیر آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ انکی جدوجہد پاکستان کےساتھ الحاق کیلئے ہے۔ جو لوگ اس مسئلہ اور بھارت کے اٹوٹ انگ کے موقف کے باوجود بھی کہتے ہیںمسائل اور تنازعات کے باوجود بھی امن کےلئے جدوجہد جاری رہنی چاہیے انکی حب الوطنی اپنی جگہ اور انکی عقل اپنی جگہ۔ وفد کے شرکاءکو شاید گھر بیٹھے آزادی اور حکمرانی مل گئی اسلئے بھارت پر فریفتہ ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاکستان بھارت تعلقات کبھی دیر پا نہیں ہو سکتے اسلئے امن کے خواستگار پہلے مسئلہ کشمیر حل کرائیں پھر تجارتی تعلقات ، دوستی اور امن کی بات کریں۔ پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ دورہ کامیاب نہیں رہا بلکہ شرکاءکیلئے یہ شرمندگی کا ٹیکہ ہونا چاہیے کہ کشمیر سیاچن اور پانی کیلئے جیسے اہم مسائل پر بات ہی نہیں کی۔