جی ہاں۔ بات تو سمجھ بھی آ رہی ہے اور کھُل بھی رہی ہے۔ قمر الزمان کائرہ صاحب این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت 18 ستمبر تک ملتوی ہونے کے بعد وزیراعظم کے ہمراہ کمرہ¿ عدالت سے باہر آتے ہوئے سپریم کورٹ بلڈنگ میں ہی ”وقت نیوز“ کے اینکر مطیع اللہ جان کے ہتھے چڑھ گئے۔ شاید وہ خود بھی اس موقع کی تلاش میں ہوں گے۔ ان کے چہرے پر موجود معنی خیز زیرِ لب مسکراہٹ آئندہ تاریخ سماعت کے لئے بھی طے کی گئی حکومتی حکمتِ عملی کی چغلی کھاتی نظر آ رہی تھی۔ نمائندہ وقت نیوز نے انہیں دام میں پھنسانے کی کوشش کی ”وزیراعظم نے تو عدالتِ عظمٰی کو یقین دلا دیا ہے کہ وہ خط لکھنے کے معاملے کا کوئی مثبت حل نکال لیں گے۔ کیا اب یقین کر لیا جائے کہ آئندہ تاریخ سماعت پر قوم کو این آر او عملدرآمد کیس کے حوالے سے وزیراعظم کی جانب سے صدر زرداری کے خلاف خط لکھ دینے کی خوشخبری ملے گی“۔ اس سوال پر کائرہ صاحب کی آنکھیں عملاً ناچتی ہوئی نظر آئیں۔ وہ شاید 18 ستمبر والی حکومتی حکمت عملی کو ملفوف لہجے میں آشکارا کرنے کے لئے اسی سوال کے منتظر تھے۔ ”بھئی حکومت نے تو سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے وقت ہی اپنا تحریری موقف عدالتِ عظمٰی میں پیش کر دیا تھا، کیا اس کے بعد ہمیں نئے وزیراعظم کے کیس میں نیا حکومتی موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے؟“ بات کھل گئی۔ عدالتِ عظمٰی چاہے وزیراعظم کو ایسی مزید مہلتیں بھی دیتی رہے۔ این آر او کیس کے فیصلہ میں سوئس حکام کو خط لکھنے والے حصے پر عملدرآمد نہ کرنے کا حکومتی فیصلہ اٹل ہے۔ قمرالزمان کائرہ کی معنی خیز مسکراہٹ یہی واضح پیغام دے رہی تھی۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالت کو اس حکومتی نیت کا اندازہ نہیں؟ حکومت کا تحریری موقف تو یقیناً عدالتِ عظمٰی کے روبرو اس کیس کی فائل میں موجود ہو گا جس میں حکومت کی جانب سے سوئس حکام کو مراسلہ بھجوانے سے صاف انکار کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہی انکار 18 ستمبر کو بھی سامنے آنا ہے۔ عدالت وزیراعظم پرویز اشرف کو باور بھی کرا رہی تھی کہ ہمارے پاس آپ سے این آر او کیس کے فیصلہ پر عملدرآمد کرانے کے سوا کوئی چارہ¿ کار نہیں ہے۔ آپ آج ہی سوئس حکام کو خط لکھنے کا یقین دلا دیں چاہے یہ خط لکھنے کی ذمہ داری اپنے وزیر قانون ہی کو سونپ دیں۔ آپ کی وزارتِ عظمٰی آئندہ انتخابات تک پکی۔
اس عدالتی پیشکش کا وزیراعظم کی جانب سے کوئی ٹھوس جواب نہیں آیا البتہ کمرہ¿ عدالت کے باہر قمرالزمان کائرہ نے ضرور ٹھوس جواب دے دیا جس کا سپریم کورٹ کو بھی وزیراعظم گیلانی کے کیس میں وفاقی حکومت کے پیش کردہ تحریری موقف کی بنیاد پر بخوبی علم و ادراک ہو گا پھر بھی وزیراعظم چھ ہفتے کی مہلت کی استدعا سے صرف 16 ستمبر تک کی مہلت کی استدعا پر آئے اور عدالت عظمٰی نے وزیراعظم کی اس استدعا پر ”گریس مارکس“ لگا کر انہیں مزید دو دن کی مہلت اپنی جانب سے دان کر دی، بھئی اگر تین ہفتوں کی اس مہلت کا نتیجہ بھی ”میرا جواب ہے“ والا نکلنا ہے تو پھر اس مہلت کی حکمتِ عملی بھلا کیا ہو سکتی ہے۔ کہیں یہ ”پہلے جاں، پھر جانِ جاں، پھر جانِ جاناں ہو گئے “ والا معاملہ تو نہیں۔
براہ راست وزیراعظم سے این آر او عملدرآمد کیس میں سوئس حکام کو خط بھجوانے کا عدالتی تقاضہ گذشتہ سال نومبر سے شروع ہوا تھا جس سے حکومت کے لئے ”صبح گیا یا شام گیا“ والی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس دوران عدالتِ عظمٰی کی جانب سے وزیراعظم کے منصب پر فائز گیلانی مرشد کو خائن کا لقب ملا۔ عدالت عظمٰی کے چھ آپشن سامنے آئے اور وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز ہوا جو کھینچتے کھینچتے اپریل کے آخر تک آن پہنچا اور اس عرصے کے دوران عدلیہ کے خلاف ایسی حکومتی دھما چوکڑی ہوئی کہ پورے سسٹم کی بنیادیں ہلتی نظر آئیں۔ پھر وزیراعظم گیلانی نااہل قرار پا کر بھی دو ماہ تک ٹکے رہے اور آئین و انصاف کو کھلم کھلا چیلنج کرتے رہے۔ آئین و عدالت پر اپنی دھاک بٹھانے کا ایسا عمل حکومت کی تبدیلی سے کم کے ردعمل کا تو ہرگز متقاضی نہیں تھا۔ مگر دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشہ نہ ہوا۔ بس اتنا سا ہوا کہ اپنی نااہلیت کے دو پونے دو ماہ بعد گیلانی مرشد سابق وزیراعظم کا لقب پا کر خاموشی سے گھر چلے گئے۔
اب بساط نئے وزیراعظم کےلئے بچھی ہے اور آئین و عدالت سے سرکشی کی حکومتی طولانی داستان طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایک لمحہ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب راجہ صاحب بھی کمرہ¿ عدالت سے باہر نکل کر سیدھے اپنے گھر ہی جائیں گے مگر وہ اعتماد کے ساتھ باہر آتے ہیں اور پروٹوکول کے لاﺅ لشکر سمیت وزیراعظم ہاﺅس کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ گیلانی مرشد تو نااہل قرار پا کر بھی پوری دیدہ دلیری کے ساتھ بطور وزیراعظم برطانیہ اور دوسرے بیرونی دوروں پر روانہ ہوتے رہے۔ جبکہ راجہ پرویز اشرف کو بطور وزیراعظم ہی بیرونی دوروں پر جانے کی باضابطہ سہولت مل گئی ہے۔ 18 ستمبر کو ان کی سیاہ شیروانی پر نااہلیت کا دھبہ لگنے کی نوبت آئے گی تو یہ دھبہ بھلا کس کو نظر آئے گا۔ سو یہ سمجھ لیا جائے کہ منصوبہ سازی کے فریم ورک میں کسی دکھائی دینے والے دھبے کی نوبت نہیں آنے والی۔ اگرعدالتی ریکارڈ میں پہلے سے موجود حکومتی تحریری بیان کی روشنی میں یہ جاننے کے باوجود کہ حکومت چاہے کچھ بھی ہو جائے، سوئس حکام کو خط لکھنے کے لئے عدالتی احکام کی تعمیل نہیں کرنے والی، وزیراعظم کو 18 ستمبر تک کی مہلت مل گئی ہے تو اس کے بعد نئے انتخابات کے لئے بھلا سفر ہی کتنا باقی بچے گا۔ اگر مقررہ میعاد کے اندر بھی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے تو موجودہ اسمبلیوں کی پانچ سال کی میعاد آئندہ سال 18 فروری کو ختم ہو جائے گی۔ یقیناً اس سے پہلے پہلے نئی اسمبلی کا انتخاب ضروری ہے جبکہ پولنگ والے دن سے کم از کم تین ماہ قبل انتخابات کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس میں ووٹرز لسٹوں کی درستی، حلقہ بندیوں کی جانچ پڑتال اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی سمیت تمام مراحل طے کرنا ہوتے ہیں اور پھر اس عرصہ کے دوران پولنگ والے دن سے کم از کم ایک ماہ قبل انتخابی شیڈول جاری کرنا ہوتا ہے۔ کراچی میں حکومتی ترجمان نے 4 اپریل انتخابی تاریخ دیدی ہے۔
اب اس انتخابی پراسیس کا جائزہ لے لیجئے۔ بخوبی سمجھ آ جائے گی کہ وزیراعظم کو 18 ستمبر تک کی مہلت کیوں ملی ہے۔ جناب۔ حکمت عملی یہی ہے کہ موجودہ اسمبلیوں اور ان کے تحت قائم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پانچ سال کی میعاد ہر صورت پوری ہونے دی جائے۔ اس میعاد کے اندر نئی اسمبلی کے انتخابات کا آئندہ سال فروری کے دوسرے ہفتے تک انعقاد ضروری ہے جس کے لئے تین ماہ قبل انتخابی عمل شروع ہونا ہے تو وہ اس سال نومبر سے شروع ہو جائے گا۔ پھر انتخابی عمل شروع ہونے سے صرف ایک ماہ قبل وزیراعظم کو گھر بھجوا دیا جائے۔ یہ کہاں کی دانشمندی ہے۔ سو خاطر جمع رکھئے۔ 18 ستمبر کو وزیراعظم پوپلی زبان سے چند ہفتوں کی مزید مہلت کی بھیک مانگیں گے جو انہیں آخری وارننگ کے ساتھ دان ہو جائے گی۔ یہ میرا حسنِ ظن ہے اور ممکن ہے 18 ستمبر کو کوئی اور نقشہ بھی بن جائے مگر ہم نے سسٹم کو کسی قسم کی گزند نہ پہنچنے دینے اور اسمبلیوں کی پانچ سال کی آئینی میعاد پوری کرانے کا کریڈٹ لینا ہے۔ سو مجھے تو راجہ جی کی ”چین“ کی بنسری اگلے انتخابات تک ان کے لئے میٹھے، مدھ بھرے سُر الاپتی نظر آ رہی ہے۔ کوئی بدخواہ اس سہانی فضا میں سے اپنے لئے رونے کا کوئی مقام نکال لیتا ہے تو اس میں بھلا منصوبہ سازوں کا کیا قصور ہے۔