”دھاندلی، دھرنا اور ارسلان کیس“

عمران خان کہتے ہیں کہ” انصاف کی امید ختم ہو گئی تو احتجاجی تحریک کی قیادت کروں گا“۔ خان صاحب ”انصاف“ سے مراد شاید ”شرمناک“ کو ملنے والا انصاف ہے جس کا مقدمہ چل رہاہے اور جس کو رائی کا پہاڑ بنایا جا رہاہے۔انسان خطا کا پُتلا ہے ، زبان پھسل سکتی ہے۔ جناب مخدوم ہاشمی نے جب نواز شریف کو اپنا لیڈر کہا تو، عمران خان نے بیان دیا تھا کہ ہاشمی صاحب کی زبان پھسل گئی ہے جبکہ ہاشمی صاحب کو میڈیا کے سامنے پی ٹی آئی کے منچلوں سے معافی پر مجبور بھی کیا گیا۔ جوش خطابت میںخان صاحب کی بھی زبان پھسل گئی تھی۔ لیکن امید ہے خان صاحب اپنے مشیران سے مزید مستفید ہونے کی بجائے حکمت و دانشمندی کا ثبوت دیں گے۔ ورنہ تحریک انصاف اپنا نام تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور تحریک انصاف ”تحریک احتجاج“ بن جائے گی بلکہ اس تحریک کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے جماعت اسلامی سے روحانی فیض حاصل کیا ہے۔ عمران خان نے سیاست کے بنیادی اصول مرحوم قاضی حسین احمد سے سیکھے جس میں دھرنا بھی شامل تھا۔ ملک کی نمبر ون سیاسی جماعت بننے کی آرزو مند تحریک انصاف انتخابات کے بعد دوسری بڑی پارٹی کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن ضمنی الیکشن کے بعد اپنا معیار برقرار نہ رکھ سکی اور تیسرے نمبر پر آ گئی۔ پہلے عمران خان اور تحریک انصاف ایک ہوا کرتے تھے مگر جب سے دو نمبر لوگوں نے اس پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے، تحریک انصاف اپنا مقام برقرار نہیں رکھ سکی۔ تحریک انصاف کے کارکن عمران خان سے محبت کرتے ہیں مگر عمران خان نے پارٹی کو سونامی بنانے کے لئے ایسے ایسے لوگ شامل کر لئے جنہوں نے سونامی کو ”بدنامی“ بنا دیا، سونے پہ سہاگہ الیکشن ٹکٹ کی تقسیم میں مبینہ دھاندلی کی گئی جس پر کارکنوں نے کہنا شروع کر دیا کہ جو پارٹی اپنے وفاداروں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکی وہ ملک کوانصاف کیوں کر مہیا کر سکتی ہے۔انصاف کا نعرہ لگانے والی پارٹی آج خود انصاف کے دروازے پر کھڑی ہے۔ عوام نے امیدواروں کو نہیں عمران خان کو ووٹ دئے اور جہاں سے ہار گئے،وہاں دھاندلی نے اپنا کردار ادا کیا۔یہ وہی دھاندلی ہے جو دنیا کے ہر ملک میں الیکشن کے دنوں میں ہوا کرتی ہے البتہ مہذب ملکوں میں مہذب انداز میں ہوتی ہے اور پاکستان میں ہر ہارنے والے کو ہری جھنڈی دکھا دی جاتی ہے۔ پاکستان میں دھاندلی کی”شرمناک“ صورتحال بن گئی ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ ضمنی الیکشن میں بھی زیادتی ہوئی۔ اس نقاب پوش ”مس دھاندلی“ نے عمران خان کو ان کے آبائی علاقے سے بھی ہروا دیا۔ صاحب کہتے ہیں کہ” مجھے میاں والی کی سیٹ ہارنے پرافسوس ہے اور پشاور کی سیٹ پی ٹی آئی نے حماقت سے ہاری“۔
 جس شخص کا اس کے گھر والے ساتھ چھوڑ دیں ،اسے اپنے پرائے سب طعنے دیتے ہیں ،اس پر شرمناک واقعہ یہ ہوا کہ اس مس دھاندلی نے بابے بلور کو جتوا دیا۔ دھاندلی اور دھرنا، ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر نہ یہ باز آتی ہے اور نہ اسے شرم آتی ہے۔ دھاندلی اور دھرنے کی ہٹ دھرمی اس ملک کی پرانی روایت ہے۔ احتجاج کے بعد ناراض کارکن ویک اینڈ پر آرام کرتے ہیں اور پھر تازہ دم ہو کر گھروں سے نکل آتے ہیں۔ ’تحریک انصاف کا ”شرمناک“ ہی متنازعہ نہیں بنا ہوا، کچھ اور بھی رازونیاز ہوئے ہیں اس لئے صرف دھاندلی اور دھرنا ہی مسائل نہیں، حضرت نوحؒ نے بھی اپنے نافرمان بیٹے کی معافی کے لئے اللہ تعالیٰ سے گزارش کی تھی مگر اللہ سبحان تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ پیغمبر سے فرما دیا تھا کہ اے نوح ؒیہ لڑکا آپ کے اہل خانہ میں سے نہیں۔ چیف جسٹس بھی ارسلان کیس میں جذبہ پدری کو غالب نہ آنے دیں۔ سورة تغابن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں”اے ایمان والو! تمہاری کچھ بیبیاں اور تمہاری کچھ اولاد تمہارے دشمن ہیں“۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میںحضرت نوح ؑ اور حضرت یعقوبؑ کے نافرمان بیٹوں کی مثالیں پیش کرکے اس آیت مبارکہ کی وضاحت فرما دی ہے۔ مال اور اولاد کو فتنہ اور آزمائش قرار دیا گیا ہے۔ قوم کو پختہ یقین ہے کہ چیف جسٹس کا انصاف عمر فاروقؓ کی تاریخ زندہ کر دے گا۔

ای پیپر دی نیشن