ابھی تو بھارت نے سرحد پر ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ شروع کی ہے۔ ایک زمانے میں بھارت کے طاقتور وزیراعظم راجیو گاندھی نے پاکستانی سرحد پر اپنی بہت سی فوجیں اکٹھی کر دی تھیں اور یہ خبریں بھی زخمی پرندوں کی طرح اڑ رہی تھیں کہ اب جنگ لگے ہی لگے۔ مگر جنگ نہ ہوئی۔ مجھے پاکستان کا ایک فوجی صدر جنرل ضیاء الحق یاد آتا ہے۔ اس کی یاد سے ملک میں کئی ناگواریاں بکھر جاتی ہیں۔ میں سچی جمہوریت کو پسند کرتا ہوں مگر نام نہاد جمہوری سیاستدانوں اور حکمرانوں کی جمہوریت دوستی کی باتیں سن کر اور پھر ان کی ذاتی اور سیاسی آمرانہ کارکردگی دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔
یہ بحث میں پھر کبھی کروں گا۔ میرا یہ حال ہے کہ میں جنرل ضیاء کو ناپسند کرتا ہوں اور اسے پسند بھی کرتا ہوں۔ میری پسندیدگیاں یونہی نہیں ہیں۔ جنرل صاحب نے بھٹو صاحب کا تختہ الٹا اور پھر انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا۔ بھٹو کو بھی میں پسند کرتا ہوں اور ناپسند بھی کرتا ہوں۔ بھٹو نے کہا تھا کہ میں بھارت سے ایک ہزار سال تک لڑوں گا۔ یہ بات انہوں نے سوچ سمجھ کر کی تھی۔ انہوں نے ایٹم بم بنانے کے لئے بنیاد خواہ مخواہ تو نہیں رکھی تھی۔ اس بہت پڑھے لکھے سیاستدان کے دل و دماغ میں کیا تھا بعد میں وہ بھارت کو دشمن نہیں سمجھتا تھا اوپر اوپر سے۔ مگر دوست بھی نہیں سمجھتا تھا اندر اندر سے۔ انہوں نے ایٹم بم بنانے کی ابتدا کی بھارت نے محفوظ رہنے کے لئے‘ اسے تکمیل تک پہنچایا جنرل ضیاء الحق نے اور ایٹمی دھماکے کئے نواز شریف نے تو یہ تینوں سیاسی کردار بھارت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ نواز شریف بھارت کو دوست نہں سمجھتے وہ کاروبار کرنے کے لئے اسے دوست بنا لیں مگر بھارت کے دل سے پاکستان دشمنی تو نہ نکال سکیں گے۔ نواز شریف اپنا کاروبار تباہ کر لیں گے۔ ذاتی بھی اور قومی بھی۔ اس تجارت میں پاکستان اور پاکستانی حکمرانوں کے لئے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ تجارت چین سے، ایران سے حتیٰ کہ افغانستان سے۔ کسی ہمسائے سے مگر بھارت ہمسائیگی کی اخلاقیات اور سیاسیات کو ہی نہیں سمجھتا۔ تجارت کے لئے بھی بھارت پاکستان کو تھلے لگا کر آغاز کرنا چاہتا ہے۔ میں پھر اصل موضوع سے ہٹ گیا ہوں۔ ڈاکٹر قدیر کو سلام انہوں نے جو کچھ کیا۔ کوئی نہیں کر سکتا۔ اب بھی وہ بھارت کو للکار رہے ہیں۔
مگر نواز شریف بھارت کو پکار رہے ہیں۔ میری گزارش نواز شریف سے یہ ہے کہ وہ بھارت کو دشمن نہ سمجھیں مگر دوست بھی نہ سمجھیں۔ جو دوستی دشمنی کے درمیان نہیں ہوتا ہے۔ اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
اب بھارت نے سرحد پر کیوں گڑبڑ شروع کر رکھی ہے۔ وہ پاکستان کو ڈرانا چاہتا ہے ڈرا کر رکھنا چاہتا ہے۔ پاکستانی حکام تو پہلے ہی ڈرے ہوئے ہیں نجانے کس سے نجانے کس کس سے۔ مگر انہیں اندر سے یقین ہے کہ بھارت حملہ نہیں کرے گا۔ حملے کی جرات نہیں کرے گا۔ مجھے بھی یہی یقین ہے مجھے پھر جنرل ضیاء یاد آتا ہے۔ وہ بھی بغیر دعوت کے کرکٹ دیکھنے کے بہانے بھارت گئے تھے۔ اسے پاکستانی سیاست میں کرکٹ ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔ نواز شریف بھی بغیر دعوت کے بھارت جانا چاہتے ہیں۔ نجانے نجم سیٹھی کیا کر رہے ہیں۔ وہ بھارت کے دوست ہیں کہ امریکہ کے دوست ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں تو جو ہوا ہے ہوتا آرہا ہے۔ سیاست کے میدان میں کیا ہو رہا ہے۔ ایک تو ہمارے عمران خان سیاسی کھلاڑی ہونے کے باوجود کرکٹ کے میدان سے نہیں نکل پا رہے۔ ان سے کوئی کہے کہ بھارت کے لئے کوئی مخالفانہ بیان دے کے دکھائے۔ وہ یہ تو کہتا ہے کہ مولانا کا وہ حال کروں گا جو بھارت کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ کیا تھا۔ اور پھر جو کچھ عمران کے ساتھ ہوا۔ وہ کیا ہے؟ ہم کیا کہیں کہ مولانا فضل الرحمن بھی بھارت کے دوست ہیں یہ کوڑا کرکٹ ڈپلومیسی اب ختم ہونا چاہئے۔
جنرل ضیاء نے راجیو گاندھی سے ایک مختصر ملاقات میں صرف اتنا کہا کہ تم لڑنا چاہتے ہو تو لڑو مگر یاد رکھو کہ ہمارے پاس ’’وہ چیز‘‘ بھی ہے۔ اس کا مطلب فوری طور پر راجیو گاندھی کی سمجھ میں آگیا اس کا رنگ فق ہو گیا اور بھارتی فوجیں واپس چلی گئیں۔ اب بھی وہ ’’چیز‘‘ ہمارے پاس موجود ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کے رویے سے لگتا ہے کہ ’’وہ چیز‘‘ کہیں ’’یہ چیز‘‘ تو نہیں بنا دی گئی ڈاکٹر قدیر حوصلہ دلاتے ہیں۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کئے تھے تو صرف یہ بتا دیں کہ کس کے خلاف کئے تھے۔ ایٹم بم تو چین نے بھی بنایا ہے مگر ہمیں چین سے بھی دوستی کی امید ہے یہ ضروری تو نہیں کہ ہر ملک سے تجارت کی جائے۔ تجارت بھی چین کے ساتھ راس آئے گی۔
میں پھر اس جملے کی طرف آتا ہوں کہ بھارت ابھی حملہ نہیں کرے گا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ کبھی حملہ نہیں کرے گا؟ اب ایک اندر کی بات بتاؤں کہ پاکستانی فوج بھارتی فوج کو برابر کا جواب دے رہی ہے۔ حساب برابر کیا جا رہا ہے ہماری حکومت اوپر اوپر سے امن کے گیت گا رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے دانت کھٹے کئے جا رہے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت اور عسکری قیادت بھارت کے مقابلے میں تو ایک ہو جائے۔ ہماری فوج ان کی فوج سے بہت آگے ہے۔ ہمارا ایٹم بم ان کے ایٹم بم سے اچھا ہے۔ ہماری میزائل ٹیکنالوجی سے اسرائیل بھی ڈرتا ہے۔ تو پھر ڈر کس بات کا ہے۔ ڈرنے کی سیاست بھی نہیں کرنا چاہئے۔ خوف کی اداکاری بزدلی کے زمرے میں آتی ہے۔
یہ ٹائمنگز بھی نہیں کہ جنگ ہو۔ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے۔ اسے یہاں سے اسلحہ لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلحہ اس کے پاس بہت ہے۔ وہ افغانستان سے نجانے کیا کچھ لے کے جا رہا ہے۔ افغانستان کو تو پتہ نہ چلا کہ اس کے پاس کیا ہے مگر امریکہ کو سات سمندر پار سے یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ منرلز اور زیر زمین بہت سی چیزیں پہاڑوں کے دامن بھی بھرے ہوئے ہیں۔ مرد کہستانی کا کمال یہ کیا کم ہے کہ امریکہ شرمندہ ہو کے جا رہا ہے۔ اس سے اندازہ کریں کہ امریکہ پورے ’’ساز و سامان‘‘ کے ساتھ سڑک کے ذریعے سمندر تک جانا چاہتا ہے اور پھر سمندری راستے اختیار کرنا چاہتا ہے کہ صرف بحری جہاز ہی متحمل ہو سکتے ہیں۔ سی ون تھرٹی ہوائی جہاز بھی بے کار ہیں؟ امریکہ کا چوتھا بحری بیڑہ شام کی طرف چل پڑا ہے مگر ساتواں بحری بیڑا مشرقی پاکستان نہ پہنچ سکا تھا۔
امریکہ کی اس نقل و حرکت کے دوران کونسی جنگ کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ تو پھر یہ عسکری موسیقی کیوں جاری ہے۔ اس کے لئے بھی ایک راز ہے اور میں اگلے کسی کالم میں اس کا ذکر کروں گا مگر ایک دکھ کا اظہار مجھے کرنا ہے کہ نواز شریف اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی بہن کی فوتیدگی پر تو پورے قافلے کے ساتھ چلے گئے مگر کسی شہید کے گھر نہ گئے اس طرح بھارت کو کیا پیغام جاتا ہے۔
نواز شریف کو یہ پتہ ہے کہ کسی ملک میں خارجہ پالیسی کے استحکام کے لئے طاقتور ہونا کس قدر ضروری ہے۔ بھارت کو کوئی پیغام تجارت کی جھولی میں بھر کر نہیں دیا جا سکتا۔ میں یقین سے کہتا ہوں اگر جنرل ضیاء زندہ رہتا تو وہ بھارت کو بھی کچھ نہ کچھ سبق سکھاتا۔ شاید اسے مروایا ہی اسی لئے گیا تھا۔