-14 اگست کے بعد اسے اسلام آباد میں جاری ڈرامے کے مقاصد اور اُس کے خدوخال اب آہستہ آہستہ واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سارے ”پاکھنڈ“ کا اصل مقصد صرف ”ون پوائنٹ ایجنڈا“ ہے____ اور وہ ہے___ ”-1“ (مائنس ون) فارمولا۔ کچھ طاقتیں ہر قیمت پر نواز شریف کو منظرِعام سے ہٹانے کی خواہش مند ہیں۔ کمال مہارت سے لکھے گئے اسکرپٹ کے نئے کردار سابق ایڈیشنل الیکشن کمشنر محمد افضل کی اسٹیج پر ڈرامائی اینٹری ہے۔ جنہوں نے فخرالدین جی ابراہیم جیسے پاک باز اور مخلص پاکستانی پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کر ڈالی ہے۔ ڈالر کو تو پَر لگ گئے ہیں۔قومی معیشت کو اب تک 800 ارب کا نقصان ہوچکا ہے۔ عام شہری بدترین اعصابی تناﺅ کا شکار ہے۔غیرملکی صدر پاکستان آنے سے انکاری ہیں۔ ایک غیرملکی جریدے کے مطابق نواز شریف کو زارِ روح سے ڈپٹی کمشنر تک محدود کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ تیسری قوت طاہرالقادری کے ذریعے وزیراعظم کے گرد سیاسی ایف۔آئی۔آر کا جال بُننا چاہتی ہے۔ تاکہ مستقبل میں انہیں بھی بھٹو کی طرح نشانِ عبرت بنانے کا جواز مل سکے، اور انہیں بلیک میل کرکے ”بیٹھی بطخ“ بنایا جا سکے۔ تاکہ وہ اپنے اقتصادی ایجنڈے، ہمسایوں سے بہتر تعلقات اورتوانائی بحران پر توجہ نہ دے سکیں۔حکومت کی تمام تر کوتاہیوں اور جناب وزیراعظم کے شاہانہ طرزِ عمل کے باوجود اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ آج وہ پاکستانی جمہوریت کی آبرو اور سینئر ترین سیاستدان ہیں۔ عمران اور طاہرالقادری دھرنے میں شرکاءکی قابلِ ذکر تعداد کی شرکت کو تو یقینی نہیں بنا سکے۔ لیکن چوہدری نثار کی حکمتِ عملی یا حقِ دوستی نبھانے کے باعث اسلام آباد کی ”شہ رگ“ پر قابض ہونے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔ جہاں وہ موسیقی اور قوالیوں سے اپنا بھرم قائم رکھے ہوئے کسی تھرڈ ایمپائر کی اُنگلی اُٹھنے کے منتظر ہیں۔اسلام آباد میں جو کچھ ہوا عام پاکستانی تشویش میں مبتلا ہے کہ اس سے پاکستانی جمہوریت مضبوط ہوگی یا اُس کا بستر لپیٹ دیا جائے گا۔ اب تک کی صورتِ حال میں دونوں فریقین نے انتہائی پوزیشنز لے رکھی ہیں۔ عمران خان اور طاہرالقادری کا مﺅقف شاید درست ہو۔ لیکن اُن کا طرزِعمل اور ٹائمنگ انتہائی ناقص ہے۔ گفتگو کا انداز نازیبا ہے۔ مُنہ سے کف بہتا ہوا اور گریبان چاک چاک۔ ایک بات یقینی ہے کہ پاکستانی معاشرہ اب کروٹ لے چکا ہے، اور سب کا اتفاق ہے کہ موجودہ استحصالی نظام نہ کچھ آگے ڈلیور کر پایا ہے اور نہ ہی موجودہ حالت میں اسے برقرار رکھا جا سکتا ہے۔اس میں جوہری تبدیلی اب ضروری ہو چکی ہے۔ مثبت بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام سیاسی اور جمہوری قوتوں نے جمہوریت کو ”ڈی ریل“ نہ ہونے دینے کا عزم ظاہر کیا ہے، اور ان تمام قوتوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں کسی غیر آئینی تبدیلی کی مخالفت کی ہے۔اِن موجودہ حالات کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں جمہوری کلچر کی جڑوں کا مضبوط نہ ہونا ہے۔ موجودہ صورتِ حال میں تمام فریقین کے دلائل بہت مضبوط ہیں، اور مخلص پاکستانی یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس شر میں سے بھی اللہ خیر کا پہلو نکالے گامثلاً تین ماہ کے اندر اندر انتخابی اصلاحات مکمل کرنا، آئین کے تحت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد، الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو، اسمبلیوں کی مدت چار سال کرنا اور سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی شفاف تحقیقات وغیرہ۔ لیکن ان سب پر عمل درآمد کے لئے دونوں فریقین کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا کیونکہ وزیراعظم کا استعفیٰ اوراسمبلیوں کی تحلیل کے مطالبے قطعی طور پر غیرآئینی اور غیر جمہوری ہیں، اور ذاتی اَناﺅں کی پیداوار ہیں۔
عمران خان ”آکسفورڈ گریجوایٹ“ ہیں۔ بیس سال جمہوری ممالک میں گزار چکے ہیں۔ پاکستانی عوام اُنہیں تازہ ہوا کا جھونکا سمجھتے رہے۔ روایتی سیاست میں ایک عمدہ تبدیلی اُنہوں نے خوابیدہ نوجوانوں اور ایک درمیانے طبقے کو جو کہ عام طور پر سیاسی معاملات سے الگ تھلگ اور نہ تعلق رہتے تھے۔وہ اُنہیں ”مین اسٹرئیم“ میں لے آئے ہیں۔ منفی پہلو یہ ہے کہ اخلاق سے گری ہوئی گفتگو، فضل الرحمان، محمود اچکزئی، خورشید شاہ اور الطاف حسین کے بارے میں ریمارکس، امریکہ کو دھمکیاں، آئی۔ایم۔ایف کو پاکستان کو قرضے نہ دینے کے لئے کہنا، وزیراعظم ہاﺅس پر چڑھائی، اسمبلیوں سے استعفےٰ اور سول نافرمانی کی تحریک کسی صورت بھی ایک متوازن ذہن کی غمازی نہیں کرتے۔ اب تو اُنہوں نے آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ دیا ہے کہ جو پاکستانی غیرممالک سے رقوم بھیجتے ہیں۔ وہ بینکوں کے بجائے ہنڈی کے ذریعے بھیجیں۔ دوسری جانب شریف برادران کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ آج اُنہیں جو دن دیکھنا پڑ رہا ہے اور جناب آصف علی زرداری کو 70 ڈشز جس میں کشمیری دال چاول، سری پائے، بٹیر کا گوشت اور مرغ اچاری پیش کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ اُن کا شخصی طرزِ عمل، اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنا، صرف کچن کیبنٹ سے مشاورت کرنا، بیوروکریسی سے کام چلانا اور خاندان میں 22حکومتی عہدوں کی تقسیم ہے۔یہ وہ تمام خرابیاں ہیں جن کے باعث اُنہیں ان حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اب ان دونوں کے درمیان ایک ایسا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ جہاں یہ خون، خونِ ناحق ثابت نہ ہو اور چودہ مرنے والوں کے لواحقین کو بھی صبر آسکے۔اُمید کی جا سکتی ہے کہ نواز حکومت اس بحران سے باہر نکل آئے گی۔ لیکن اُس کی اخلاقی ساکھ کو جو گہرا گھاﺅ لگ چکا ہے۔ اُسے قدرت کی جانب سے ”ویک اپ کال“ اور جھٹکا جان کر وہ بادشاہوں والا طرزِعمل ترک کریں اور اپنی تمام تر توجہ پاکستانیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے اور گڈگورننس پر صَرف کریں۔اپنا حلقہءمشاورت وسیع کریں اور کشمیریوں، بٹوں اور لاہوریوں کے علاوہ قابل، دیانتدار، اور زرخیز ذہنوں کو بھی حکومتی ذمہ داریوں کا اہل جانیں۔