”پھانسی کے لئے پھانسنا!“

جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل اور اُن کی آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنما صاحبزادہ احمد رضا خان قصورِی ایک نیوز چینل پر بتا رہے تھے کہ ”لاہور میں جب میرے والد نواب محمد احمد خان کو قتل کِیا گیا تھا تو (اُن دِنوں) وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو ملتان میں نواب صادق حسین قریشی کے ”وائٹ ہاﺅس“ میں مہمان تھے۔“ قصورِی صاحب شاید یہ دلِیل دے رہے تھے کہ ”جب 17 جون کو سانحہ ماڈل ٹاﺅن رُونما ہُوا تو اِس کے باوجود کہ وزیرِ اعظم نواز شریف لاہور میں نہیں تھے لیکن اُن کے خلاف علّامہ طاہراُلقادری کی تحریکِ مِنہاج اُلقرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے قتل کی سازش کا مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔“
نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش کے مقدمے میں احمد رضا قصوری واحد مُدّعی تھے اور اس میں بھٹو صاحب کو "Principal Accused" (بڑا ملزم) نامزد کِیا گیا تھا۔ اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ جناب حنیف رامے نے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ٹیلی فون پر اجازت لے کر اُن کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے دی تھی۔ تقریباً ایک سال بعد بیگم نصرت بھٹو ماڈل ٹاﺅن لاہور میں احمد رضا قصوری کے گھر تشریف لے گئیں۔ قصورِی صاحب نے صحافیوں سے کہا کہ ”بھائی (قصوری صاحب) کے گھر بہن (بیگم نصرت بھٹو) آ گئی ہیں اور مَیں ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے والد صاحب کا قتل معاف کرتا ہُوں۔“
اِس اعلان کے بعد قصورِی صاحب دوبارہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ جنابِ بھٹو ”لائی لگ “ تھے۔ انہوں نے اپنے درباریوں کے مشورے پر 1977ءکے عام انتخابات میں احمد رضا قصورِی کو پارٹی ٹِکٹ نہیں دِیا۔ جنرل ضیااُلحق نے احمد رضا قصوری کو پھانس لِیا اور دوبارہ مُدّعی بنا کر بھٹو صاحب کو پھانسی دِلوا دی۔ جناب بھٹو سمیت پیپلز پارٹی میں سینکڑوں نامور وُکلاءتھے۔ کسی بھی ”نامور وکیل“ کو یہ نہ سُوجھی کہ وہ لاہور کے کسی مجسٹریٹ کی عدالت میں احمد رضا قصوری کو ساتھ لے جا کر بیان دِلوا دیتا کہ ”مَیں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے والد صاحب کا قتل ”معاف کر دِیا ہے۔“ اِس لحاظ سے بھٹو صاحب کی پھانسی کے ذمہ دار خود بھٹو صاحب تھے اور اُن کے ”نامور وُکلا“۔
سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں جاں بحق ہونے والوں میں علّامہ طاہراُلقادری کا کوئی بیٹا، بھتیجا، بھانجا، داماد یا کوئی اور خونی رشتہ دار نہیں مارا گیا۔ اِس لئے وہ اِس مقدمے میں خُود مُدّعی نہیں بن سکے۔ البتّہ موصوف مرنے والوں کے لِیڈر کی حیثیت سے میڈیا میں اُن کا مقدمہ ”لڑ جھگڑ“ رہے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن قابلِ مذّمت ہے اور اِس کے ذمہ داروں کو سزا ضرور مِلنی چاہیے لیکن عّلامہ القادری نے مقتولین کو ”شُہدا¿“ قرار دے کر انہیں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے پاک فوج کے 55 ہزار افسروں اور جوانوںکا ہم مرتبہ بنانے کی کوشش کی ہے اور اب وہ ان کے لواحقین کو اپنے ”اِنقلاب“ کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کا حُکم برقرار رکھتے ہُوئے وزیرِاعظم میاں نواز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سمیت21 دوسری شخصیات کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حُکم دِیا ہے لیکن تفتیشی افسران کو اس بات کا بھی پابند کِیا ہے کہ ایف آئی آر میں نامزد کئے گئے ملزمان کے خلاف الزامات کے سچ یا جھُوٹ سے متعلق شواہد اکٹھے کرنے اور ثبوُت مِلنے تک ان کی گرفتاری ضروری نہیں۔“ ہائی کورٹ کے اِس حُکم سے اس بات کا ثبوُت تو مِل گیا کہ ہمارے یہاں عدلیہ آزاد ہے اور دوسری بات یہ کہ علّامہ القادری ایف آئی آر درج کرانے کے لئے شور و غوغا کرنے والے اُن کے مُرِیدوں کو بھی اطمینان ہونا چاہیے تھا لیکن اب ”شیخ اُلاسلام“ کا مطالبہ ہے کہ ”وزیرِاعظم نواز شریف اور میاں شہباز شریف سمیت ایف آئی آر میں نامزد کئے گئے تمام ”ملزموں“ کو پھانسی دی جائے۔“
علّامہ القادری اپنی کئی تقریروں میں اعلان کر چُکے ہیں کہ ”اِنقلاب کے بعد مَیں پاکستان کے ہر شُعبے کے بدعنوان لوگوں کو خود اپنے ہاتھوں سے پھانسی دُوں گا خواہ اُن کی تعداد لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو!“ اِس طرح کا اعلان تو پاکستان کے کسی بھی چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر نے بھی کبھی نہیں کیا۔ علّامہ طاہر اُلقادری اور عمران خان کے سابق ” godfather“ جنرل پرویز مشرف نے بھی کبھی اس طرح کا اعلان نہیں کیا تھا۔ ایک اور بات کہ چنگیز خان اور ہلاکُو خان سمیت لاتعداد ”فاتحین“ نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کو پھانسی دِلوائی یا کسی اور طریقے سے قتل کرایا لیکن اپنے ہاتھوں کو زحمت نہیں دی بلکہ اپنے اپنے ”جلّادوں“ کو یہ فریضہ سونپ دِیا تھا یعنی
”یہ کام کِیا کرتے ہیں جلّاد وغیرہ“
کل (27 اگست) کو اپنے خطاب میں علّامہ القادری نے شریف برادران کو مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا ”تخت یا تختہ! یا تم رہو گے یا ہم“ (القادری صاحب نے خود کو ”ہم“ کہا) پھر انہوں نے کہا کہ ”ٹریبونل کے فیصلے کے بعد بات حکومتوں کے خاتمے سے بڑھ کر شریف برادران کی پھانسی تک پہنچ چُکی ہے۔“ علّامہ القادری کے بس میں ہو تو وہ اپنے خاندان کے لوگوں کے سِوا اُن سب لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی پر چڑھا دیں کہ جنہوں نے ان کے اِنقلاب مارچ اور دھرنے میں شرکت نہیں کی اور جو لوگ موصُوف کو ”شیخ اُلاسلام“ تسلیم نہیں کرتے۔
ہمارے یہاں رواج یہ ہے کہ جب کسی کا عزیز رِشتہ دار قتل ہو جاتا ہے تو وہ اپنے دُشمنوں کے پُورے خاندان کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دیتا ہے اور جب عدالت شہادتوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر مُدّعی کا ”جھُوٹ“ پکڑ لیتی ہے تو ملزمان کو باعِزّت بری کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود مُدّعی نے ہی قتل کرایا ہوتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی پہلے تو شہادتوں اور ثبوتوں کی بنیاد پر تفتیش ہو گی۔ پھر عدالت میں چالان پیش کِیا جائے گا۔ سیشن کورٹ کے بعد ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ۔ علّامہ طاہراُلقادری اپنے مخالفین کے میڈیا ٹرائل کے ماہر ہیں اور اُن کے خلاف فتوے دینے کے بھی۔ ”جنوری 2013 ءمیں القادری صاحب نے صدر زرداری سمیت اُن کی پیپلز پارٹی کے اور حکومت میں شامل مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈروں کو یزدِیو! بے غیرتو! بے شرمو! اور بے حیاﺅ! کہہ کر مخاطب کِیا اور اب موصوف وزیرِاعظم نواز شریف وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وفاق اور پنجاب کے وزیروں کواسی طرح کے القابات سے نواز رہے ہیں۔
فروری 2013 ءمیں علّامہ طاہراُلقادری الیکشن کمشن آف پاکستان کو تحلیل کرانے کے لئے سپریم کورٹ گئے تھے۔ اپنی درخواست کی (انگریزی بولتے ہُوئے) پَیروی بھی خود کی تھی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور اُن کے دو ساتھی جج صاحبان نے متفِقّہ فیصلہ دِیا تھا۔ ”علّامہ طاہر اُلقادری خود کو ”نیک نیّت“ ثابت نہیں کر سکے۔“ اُن دِنوں اٹارنی جنرل آف پاکستان جناب عرفان قادر نے کہا تھا کہ ”علّامہ طاہراُلقادری کے ہاتھ صاف نہیں ہیں“ (یعنی گندے ہیں)۔ اُس کے بعد القادری صاحب کی زبان سے چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کے بارے میں ”ہجو“ ہی برآمد ہوئی۔ کہیں قتل ہو جائے تو تفتیشی آفیسر اور اُس کے بعد عدالت یہ بھی دیکھتی ہے کہ ”اِس قتل کا فائدہ کِسے پہنچا ہے۔“ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں جو لوگ قتل ہُوئے اُس کا فائدہ کِسے ہُوا؟ یا کِس نے اُٹھایا؟ القادری صاحب عدالت میں پیش ہُوئے تو شاید اُن سے بھی پُوچھا جائے گا۔ بہرحال علّامہ القادری نے فی اِلحال تو شریف برادران کو زبان و بیان کے جال میں پھانس لِیا ہے۔ اُن کے بیان سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انہیں پھانسی کے پھندے تک لے جانا چاہتے ہیں لیکن فیصلہ تو اعلیٰ عدلیہ نے کرنا ہے اور پھر سب سے بڑی عدالت کے مالک خُدائے بُزرگ و برتر نے۔ دیکھتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن