کراچی + اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + وقائع نگار خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پارٹی قائدین کو ٹیلی فون کرکے پارٹی رہنمائوں کی گرفتاریوں پر بھرپور احتجاج کرنے، ٹھوس حکمت عملی اپنانے اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ کیا کرپشن صرف کراچی میں ہو رہی ہے؟ ڈاکٹر عاصم کا قصور پیپلز پارٹی سے تعلق ہے۔ جیلیں اور ہتھکڑیاں ہمارا راستہ نہیں روک سکتیں۔ دریں اثناء میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کو گرفتار کر کے آصف زرداری کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اگر حکومت نے آصف زرداری پر ہاتھ ڈالا یہ جنگ کی ابتدا ہوگی۔ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے وہ سندھ میں ہی کر رہی ہے کیا کرپٹ افراد سندھ اور پیپلز پارٹی میں ہی رہ گئے ہیں؟ پنجاب، خیبر پی کے اور بلوچستان سے کرپشن ختم ہو گئی ہے؟ حکومت فیصلہ کرے پاکستان کو رکھنا ہے یا غیر مستحکم کرنا ہے۔ نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں۔ مسائل جو بھی ہیں وہ بیٹھ کر حل کر لئے جائیں۔ سندھ میں ’’را‘‘ مکمل طور پر داخل ہو چکی ہے۔ حکومت سوچ سمجھ کر اقدامات کرے۔ آپس میں الجھنے کے بجائے ’’را‘‘ اور دہشتگردی کا مقابلہ کیا جائے۔ ہم ایم کیو ایم کی طرح استعفے دے کر پارلیمنٹ سے باہر نہیں جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے حکومتی جبر و استبداد کا مقابلہ کرینگے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کو عدالت میں پیش کرنے سے قبل ان سے تحقیقات کی جائے جیسا کہ مہذب معاشروں میں ہوتا ہے۔ راجہ پرویز اشرف پر بھی گرے ٹریفکنگ کا کیس بنایا جا رہا ہے۔ بندوق کے زور پر کچھ نہیں ہوتا۔ زرداری ہر سال کی طرح چھٹی منانے گئے ہیں۔ اسی ہفتے واپس آ جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے الیکشن کمشن کے سامنے دھرنے میں شریک نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کو سمجھنا چاہئے کہ سیاسی جماعتیں ان کی دست بازو ہیں، صرف سندھ کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ حکومت ہوش کے ناخن لے۔ قاسم ضیاء کے ہاتھ میں ہتھکڑی دیکھی، نیب کو ایسی حرکت پر شرم آنی چاہئے تھی۔ الیکشن کمشن ارکان کو ازخود مستعفی ہونا چاہئے مگر وہ لاکھوں روپے تنخواہیں لے رہے ہیں وہ سیٹ کیوں چھوڑیں گے، 1965ء میں بنگالی پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑرہے تھے، پانچ سال کے بعد وہ کیوں ہم سے الگ ہونے پر مجبور ہوئے، تب بھی اسی طرح ایک صوبے کو ٹارگٹ بنایا جارہا تھا، آرمی چیف کو سندھ میں وزیراعلیٰ اور گورنر کو اعتماد میںلینا چاہئے تھا۔ مجھے بڑی تکلیف ہوئی ہے ہمارا ملک پہلے ہی انتشار کا شکار ہے، فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کو بچانا ہے یا غیر مستحکم کرنا ہے۔ حکومت کو اتنا کمزور نہیں ہونا چاہئے، بندوق کے زور پر کچھ نہیں ہوسکتا، پکڑ دھکڑ بند ہونی چاہئے، بھارت اور افغانستان کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں، ہم آپس کے انتشار میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کا بیان کسی اور حوالے سے تھا۔ انہوں نے ہی فوجی عدالتوں کو پاکستان کی ضرورت قرار دیا۔ پیپلز پارٹی پاکستان کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ دریں اثناء پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان اور قمر زمان کائرہ نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی عدالت میں پیش ہونے کو تیار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کئے جارہے ہیں۔ کرپشن کا کبھی دفاع نہیںکیا۔ پیپلز پارٹی کا مؤقف خورشید شاہ بیان کرچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو کیا پیغام دیا جارہا ہے۔لگتا ہے پیپلز پارٹی کیخلاف انتقامی عمل جاری ہے۔ ان کے خلاف کارروائی ایک ساتھ زور پکڑتی جارہی ہے۔ پیپلز پارٹی درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر پیپلز پارٹی کو وضاحتیں درکار ہیں۔ نیب کو اس وقت صرف پیپلز پارٹی نظر آرہی ہے۔ حکومت نے اوفا اعلامیہ میں گڑبڑ کی۔ ملکی وقار کا تحفظ کریں، ہم حکومت کے ساتھ ہیں، وائٹ کالر کرائم کی جواب دہی ہونی چاہئے۔ دہشت گردوں کیخلاف قوانین کو سیاستدانوں کیخلاف کیسے استعمال کیا جارہا ہے۔ پیپلز پارٹی دہشت گردی کیخلاف لڑتی رہی ہے۔ اس پر دہشت گردوں کو مالی معاونت کا الزام کیسے لگایا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی میدان میں ہے اور آگے بڑھے گی۔ قائد اور کارکن سینے پر گولی کھانے کو تیار ہیں۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے ملکی مفاد کو ٹھیس نہ پہنچے۔ ہم نے ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ خارجہ سطح پر پاکستان کے مفادات کا خیال کرنا چاہئے۔ ہم قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان جائرہ نے کہا کہ پارٹی کسانوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ 4 فصلوں سے فصل کی اصل قیمت نہیں مل رہی۔ حکومت چند ہزار لوگوں کو 70 فیصد سبسڈی دے رہی ہے۔ زراعت سے وابستہ 70 فیصد آبادی کو موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے۔ ہم کبھی عدالتوں سے نہیں گھبرائے، ہمارے خلاف فنڈنگ اور سازش کی گئی۔ پیپلز پارٹی یہ کبھی قبول نہیں کرے گی کہ ہم پر دہشت گردی کا الزام لگایا جائے۔ ہماری قیادت کو دہشت گردوں نے شہید کیا ہے۔ ہم پر دہشت گردی کا الزام لگا تو قبول نہیں کریں گے خواہ حکومت لگائے یا کوئی ادارہ۔ دہشت گردی کا الزام لگایا تو پھر جنگ ہوگی۔ جو چاہے الزام لگائیں، دہشت گردی کا الزام نہ لگائیں۔ پی پی پی کے کارکن سمجھتے ہیں مفاہمتی پالیسی نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا۔ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سیاست پیپلز پارٹی نہیں کرے گی۔