ایبٹ آباد کا ”جھلا“ تحریک پاکستان کا گمنام مجاہد

تحریک سول نافرمانی جو کہ گلیات کی ایک سکھ نو مسلم خاتون کو اس وقت کی کانگریس حکومت کے ایما پر سکھوں کو واپس کر دیا تھا۔ حضرت مولانا محمد اسحاق خطیب ہزارہ نے کانگریس حکومت کے اس اقدام پر فتویٰ دیا اور حکومت کے اس اقدام کو اسلام کے خلاف قرار دیا۔ مسلم لیگ کی قیادت خان عبدالقیوم خان نے اس فتویٰ پر حکومت کیخلاف تحریک سول نافرمانی کا اعلان کر دیا جو کہ 28 فروری کو ایبٹ آباد سے شروع ہوئی۔ اسی رات مسلم لیگ کی تمام قیادت کو گرفتار کر لیا گیا۔مقامی مسلم لیگ کی قیادت مولانا عبدالغنی ‘ عبدالعزیز چشتی‘ قاضی محمد اعظم نے جامع مسجد ایبٹ آباد میں حضرت مولانا محمد اسحاق جو کہ گرفتار ہو چکے تھے ان کے حجرہ جو کہ جامع مسجد کے بالائی حصہ میں تھا۔ مسلم لیگ جنگی کونسل کا دفتر بنا کر تحریک سول نافرمانی کے جلسے اور جلوس نکالنے شروع کر دئیے اس تحریک کو ہمہ گیر تحریک بنانے میں مقامی خواتین نے بھی شمولیت کر لی جس کی قیادت بیگم کمال الدین امتیاز آیا‘ نشاءقریشی ‘ ساحرہ جدون نے خواتین کو منظم کر کے ان کے جلوس نکالنے شروع کردئیے۔تحریک سول نافرمانی جو 2 جون 1947ءکو مطالبہ پاکستان منظور ہونے پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں جہاں مسلم لیگ کے بڑے بڑے رہنما تھے وہاں کئی ایسے گمنام مجاہد بھی تھے جو کہ خاموشی سے اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان میں ایک مضبوط جوان ”جھلا“ بھی تھا۔ مسلم لیگ ہائی کمان نے نے روزانہ جلوس نکالنے کے علاوہ اور دفعہ 144 کو توڑنے کے ساتھ ساتھ ضلع کچہری میں عدالتوں پر رضا کاروں کی پکٹنگ بھی لگا دی۔ جس میں سب سے آگے یہ جھلا جو کہ تناول کے علاقہ سے تعلق رکھتا تھا اور کئی سالوں سے پھٹے پرانے میلے کچیلے کپڑے پہنے بازاروں میں پھرتا رہتا تھا کسی نے کھانا کھلا دیا تو ٹھیک ورنہ وہ بھیک نہیں مانگتا تھا۔ رات بازار میں تھڑے پر سو جاتا تھا وہ مسلم لیگ کے جلوسوں میں بھی سب سے آگے اور عدالتوں کی پکٹنگ میں بھی ہر روز سارا سارا دن بیٹھے رہنا۔ میرے سامنے انگریز ڈپٹی کمشنر سینٹ جان نے کئی دفعہ ہاکیوں سے اس کی پٹائی کی اور وہ گھبرو مضبوط جسم کا مالک یہ ظلم برداشت کرتا تھا صرف منہ سے یہ آواز نکالتا تھا ”بن کے رہے گا پاکستان‘ پاکستان زندہ باد۔ پولیس لاٹھی چارج میں بھی وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹا اور ان کے ڈنڈے برداشت کرتا رہا۔ مسلم لیگ سول نافرمانی 2 جو 1947ءتک رہی جب قائد اعظم نے رات کو ریڈیو میں اپنی تقریر میں پاکستان منظوری کا اعلان کیا اور سرحد میں مسلم لیگ کو سول نافرمانی ختم کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت تک یہ ”جھلا“ روزانہ مسلم لیگ کے جلوسوں میں سب سے آگے پولیس کی لاٹھیوں کی زدمیں رہا۔ اس طرح عدالتوں میں پکٹنگ پر بیٹھا رہتا۔ ڈپٹی کمشنر کی ہاکی بھی ٹوٹ جاتی تھی مگر ”جھلا“ ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا اور منہ سے صرف یہ نعرہ نکلتا پاکستان بنا کے رہیں گے۔ آخر پاکستان بن گیا وہ جھلا پھراسی طرح سارا دن میلے کچلے کپڑوں میں پھرتا رہتا۔ اس کو پاکستان بننے کے بعد کسی نے نہیں پوچھا نہ مسلم لیگ والوں نے اس کی پرواہ کی اور وہ پھر بھی کبھی کبھی ترنگ میں آ کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا رہتا تھا۔ ایبٹ آباد کے کئی لوگ اچانک بڑے رئیس بن گئے۔ ہندو¶ں کی دکانوں کے مالک بن گئے مگر اس ”جھلے“ نے کبھی کسی سے کوئی شکوہ نہیں کیا۔ میں ہمیشہ اس کو دیکھ کر سوچتا تھا کہ اس بے چارے کو پاکستان بننے کا کیا فائدہ ملا۔ آخر ایک دن 1975ءمیں جب خدا نے مجھ کو اپنی مہربانی سے ایک مقام پر پہنچایا یعنی میں اس کی مہربانی سے یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن کا منیجنگ ڈائریکٹر بنا۔ ایبٹ آباد گیا اور اس ”جھلے“ کو ڈھونڈا اور پل سٹور پر اس کو ایک معقول مشاہرے پر جو کہ اس کی سوچ سے بھی باہر تھا اور عمر کے بھی اس موڑ پر تھا کہ اور کوئی کام نہیں کر سکتا تھا رات کی چوکیداری پرمتعین اور اس کو بتایا کہ جس پاکستان کیلئے اس نے ڈپٹی کمشنر کی مار کھائی پولیس کے ڈنڈے کھائے اس پاکستان اور تو کچھ نہیں کہا مگر اس کی آخری بڑھاپے کی عمر بچائے لوگوں کی خیرات پر وہ گزارہ کرتے ایک مقبول مشاہرے پر لگایا جس پر وہ بہت خوش تھا اور ہر وقت اس کی زبان سے پاکستان زندہ باد کے نعرے نکلتے تھے۔ ایسے کسی گمنام لوگوں میں جنہوںنے اس ملک کو بنانے میں ایک کردار ادا کیا اور خاص کر مشرقی پنجاب کے مسلمان جنہوں نے اس ملک کے لئے اپنا سب کچھ قربان کیا مگر آج ہم ان سب لوگوں کو ان کی قربانیوں کو بھول گئے۔ نہ ان کے نام کی کوئی سڑک ہے نہ ہسپتال نہ نئی نسل کو مسرت موہالی ‘ مولانا ظفر علی خان‘ قیوم خان‘ صاحبزادہ عبدالقیوم ‘ سردار بہادر خان‘ سردار نشتر جلال بابا اور جھلے کی طرح یہ لوگ بھی چلے گئے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...