منشیات ایک ایسا میٹھا زہر ہے جو انسان کو دنیا و مافیہا سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس کو استعمال کرنے و الا ہر شخص حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہے اور خیالوں کے بدمست جنگل میں مست الست کا عارضی راگ الاپتا ہے۔ منشیات اپنے شکار کو اپنے جال میں کچھ اس طرح پھنساتی ہیں کہ پہلے پہل نشہ اس کی تفریح اور بعد ازاں ضرورت بن جاتا ہے، نشے کی تلاش میں زندہ رہنے کی جستجو اور زندہ رہنے کے لیے نشے کی آرزو اسکا مقصد حیات بن جاتا ہے اور پھر منشیات کا عادی اس درد ناک کرب میں لمحہ لمحہ مرتا رہتا ہے۔ اس کی مو ت صرف اس کی اپنی موت نہیں ہوتی، بلکہ اس کی خواہشات بھی اس کے ساتھ ہی دفن ہو جاتی ہیں۔سوچنا یہ ہے کہ اس المیہ میں ہمارا کردار شامل تو نہیں ہے؟ ایک نارمل شخص اگر منشیات کا استعمال شروع کرتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ کوئی نہ کوئی واقعہ، سانحہ، تلخی، مایوسی یا محرومی اور ناکامی کا کوئی پہلو ضرور ہوگا۔ حدیث نبویؐ ہے کہ تم میں سے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا جو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔ اگر ہم صرف اس حدیث مبارکہ پر عمل پیرا ہوں تو یقین جانیے معاشرے سے برائیوں کاخاتمہ ہو جائے، عدل کا غیر متوازن ترازو توازن میں ڈھل جائے، حلال و حرام میں تمیز ہونے لگے اور ایک خوشحال اور پر امن معاشرہ تشکیل پا جائے۔ اسلام دین فطرت ہے اور مکمل ضابطہ حیات بھی۔ اسلام نے زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے اور انسانی حیات کے نشیب و فراز پر سیر حاصل بحث کی ہے، خداوند تعالیٰ نے انسان کو عارضی دنیا میں بھیج کر اچھے برے افعال کی نشاندہی کر دی، ذرا غور کریں آج سے 14سو سال قبل رسول کریمؐ کی وحی سے دھلی ہوئی زبان مبارک سے شراب کو حرام قرار دیا گیا اور آج سائنس اسی نتیجہ پر پہنچ پائی ہے کہ نشہ انسان کی صحت کے لیے زہر قاتل ہے۔فی زمانہ انسان نے نئی نئی اقسام کے نشے ایجاد کئے ہیں، نشہ جس صورت میں بھی ہو، صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ وطن عزیز میں پاکستان دشمن عناصر نے ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت ملک کے طول و عرض میں نشہ کا جال پھیلا دیا ہے۔ نشہ انسان کی صحت خراب کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ذہنی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے۔ آج کل افیون، چرس اور شراب کے استعمال کے ساتھ ساتھ ہیروئن کا زہر بھی فضا کو مسموم کر رہا ہے۔ نشہ کے ڈیلر قوم سے رقم بٹور کرقوم کے لیے تباہی کے گڑھے کھود رہے ہیں۔ ایسے افراد جو قوم کو نشے کی لت لگاتے ہیں۔ ملک و ملت کے ہی نہیں انسانیت کے بھی دشمن ہیں۔ایسے لوگوں کا وجود قوم کی ترقی کی راہ میں حائل ہے، نشہ باز شخص بہنوں کا اچھا بھائی ثابت نہیں ہوتا، بیوی ایسے شوہر سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ والدین ایسے نا خلف ناہنجار کے ہاتھوں مجبور اور بے بس ہوتے ہیں، نشئی کی اولاد صحیح خطوط پر تعلیم و تربیت سے محروم رہتی ہے۔ وقت مقرر پر اسے یار دوست بھی چھوڑ دیتے ہیں، یوں تنہا سسک سسک کر مرنا اس کا مقدر بن جاتا ہے اور ایک فرد پورے کنبے کو لے ڈوبتا ہے۔ خاندانوں کے ملاپ کو معاشرہ کہتے ہیں اور معاشروں سے قومیں بنتی ہیں، نتیجہ یہ کہ ایک نشہ باز ساری قوم کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔سوچنا یہ ہے کہ نشئی اپنی ہلاکت کا ذمہ دار خود ہے یا پورا معاشرہ؟ جب بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ سہارے کا محتاج ہوتا ہے، تھوڑی سی کوتاہی اس کی جان لے سکتی ہے، جوں جوں بچپن سے لڑکپن کی حدود میں داخل ہوتا جاتا ہے تو کئی سوچیں اور اُمنگیں ساتھ ہوتی ہیں۔ اس مقام پر آ کر بھی وہ سہارے کے بغیر زندگی کا سفر صحیح طے نہیں کر سکتا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ معاشرتی ناہمواریوں اور نامساعد حالات کی وجہ سے وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے اور نشہ کو اپنے جسم کا مداوا سمجھ بیٹھتا ہے جو بوجہ کج فہمی تباہی پر منتج ہوتا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ نئی نسل کو اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں معاشرہ میںجائز مقام دلانے کے لیے ضروری سہولتیں بہم پہنچائیں، مساوات کا عملی مظاہرہ کریں اور بچوں کی مکمل نگہداشت کریں۔عوام کو چاہیے کہ جہاں کہیںبھی منشیات کا اڈا ہو، اس کی نشاندہی کریں اور پولیس کے ساتھ مل کر اس کا صفایا کریں، گلی محلوں میں منشیات کے زہر کے خلاف انجمنیں معرض وجود میں آنی چاہیں جو منشیات فروشوں اور ’’جہازوں‘‘ کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کریں، نیز عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر گواہی دے کر ان کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر دم لیں۔ پولیس اکیلی کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ عوام کا تعاون بہر طو ر ضروری ہے۔اگر پولیس اور عوام منشیات کے خلاف ایک ساتھ میدان عمل میں آئیں تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ منشیات فروشوں اور نشہ بازوں کا ٹھکانہ صرف جیل ہو گا۔