دردمندوں کا پاکستان

Aug 28, 2018

فریحہ ادریس

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کم نہ تھے کروبیاں
نئے وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں سرکاری اخراجات کم کرنے اور سادگی اپنانے کے اقدامات کا اعلان کیا ہے ،انتخابی نتائج کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم ہاو¿س میں قیام نہیں کرینگے جبکہ بیرون ملک دوروں پر فرسٹ کلاس میں سفر کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے ، یہ فیصلہ انکی حکومتی اخراجات کم کرنے کی نیک نیتی ظاہر کرتا ہے ،وزیراعظم عمران خان کے اس فیصلے کوعوامی حلقوں نے تو بہت سراہا ہے مگر اسکے ساتھ ہی ایک مخصوص طبقے کی جانب سے مخالفت اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے ، کہا جا رہا ہے کہ اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑےگا ، پاکستان میں حکمران طبقہ جس قسم کے طرز زندگی کا عادی ہو چکا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی تصور کر لیا گیا ہے کہ یہ ملک اسی طرح چلے گا ، اس ماحول میں ایسے فیصلوں کو ہضم کرنا کوئی آسان نہیں ہے ، علامہ اقبال نے اسی لئے کہا تھا کہ....
آئین نو سے ڈرنا طرزکہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
وہ پاکستانی جو بیرون ملک تعلیم یا ملازمت کے سلسلے میں مقیم رہے ہیں، اور خاص طور جنہوں نے مغربی ممالک کی سیاست اور پارلیمنٹ کا مشاہدہ کیا ہے ، وہ اس فیصلے کی اہمیت جانتے ہیں ، اور انہیں اندازہ ہے کہ عمران خان ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ، ہمارا حکمران طبقہ عوامی پیسوں پرجس قسم کی پرآسائش زندگی گزارتا رہا ہے ، مہذب ممالک میں جو بہت دولتمند ہیں اور ہمارے جیسے ممالک کی مدد بھی کرتے ہیں ، انکے ہاں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، پاکستانی سیاست میں مثالیں تو خلفائے راشدین کی دی جاتی ہیں مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو اسے ناقابل عمل قرار دے دیا جاتا ہے ، ہمارے ہاں سرکاری سطح پر بیوروکریسی جس بیدردی سے عوامی پیسے کو لٹاتی ہے اس حوالے سے میرا پہلا تلخ تجربہ برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن میں چودہ اگست کی تقریب میں ہوا ، اس وقت میں ویسٹ منسٹر لندن میں زیر تعلیم تھی اور ایک برطانوی اخبار کیلئے فری لانس صحافی کے طور پر کام کر رہی تھی ، مجھے نائٹس برج پر واقع پاکستانی ہائی کمیشن کی انتہائی مہنگی عمارت میں یوم آزادی کی تقریب کی کوریج کیلئے بھیجا گیا تھا ، وہاں کی آرائش اور شاندار کھانے نے مجھے بہت حیران کیا ، کیونکہ میں تو برطانوی پارلیمنٹ کو کور کیا کرتی تھی اور وہاں تو کسی قسم کے مفت کھانے کا تصور بھی نہیں تھا، اسی طرح ایک اور موقع پر مجھے اس تضاد کو دیکھنے کا موقع ملا جب پاکستانی ہائی کمیشن کی ہی ایک تقریب میں مجھے دوبارہ رپورٹنگ کیلئے بھیجاگیا، یہ تقریب سینٹرل لندن کے ایک انتہائی مہنگے ہوٹل میں منعقد کی گئی جو برطانوی پارلیمنٹ کے نزدیک تھا اسی لیے میں نے اکثر برطانوی وزراءکو سادہ لباس میں پیدل ہی تقریب میں آتے دیکھا جبکہ کچھ ٹیکسیوں کے ذریعے وہاں پہنچے جبکہ اسکے برعکس پاکستانی سفارتی اہلکار مہنگے سوٹ میں ملبوس ، کرائے کی لیموزین میں تشریف لائے ، یہ دیکھ کر مجھے شرم بھی آئی اور افسوس بھی ہوا ، میرے والد کی زندگی پاکستان ایئر فورس اور سول ایوی ایشن میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے گزری ہے اور وہ ہمیں بھی ہمیشہ دیانتداری سے زندگی گزارنے کا درس دیتے رہے ، مگر اپنی آنکھوں سے عملی زندگی میں سب کچھ ان باتوں کے برعکس ہوتا دیکھ کر میں حیران بھی بہت تھی اور پریشان بھی۔ جب اس رات میری ان سے فون پر بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ یہاں ہوتا ہے ، بس ان معاملات سے ہمیشہ خود کو علیحدہ رکھنا اور انہیں ناپسندیدگی سے دیکھنا ، یہی کچھ ان حالات میں ہم کر سکتے ہیں۔انہوں نے ایک سرکاری وفد کے ساتھ اپنے چین کے دورے کا حال سنایا جہاں انکے ساتھ جانےوالے افسران نے سرکاری خرچ پر مہنگے ہوٹلوں میں قیام کیا اور مہنگے کھانے اڑائے ، جب فلائٹ کی بکنگ میں غلطی کی وجہ سے وفد کو دو دن مزید چین میں قیام کرنا پڑا ، انہیں بتایا گیا کہ اس کا خرچ انہیں اپنی جیب سے ادا کرنا ہو گا تو وہی افسران جو مہنگے ہوٹلوں سے کم میں قیام کرنے پر تیار نہیں تھے وہ لوگ سستے ہوٹل ڈھونڈ رہے تھے اور کھانے کیلئے کم قیمت ریستورانوں کا رخ کر رہے تھے ، میرے والد نے انتہائی افسردہ لہجے میں کہا تھا کہ بیٹا ان لوگوں کے دلوں میں اپنے ملک کا کوئی درد نہیں ہے۔
جب میں پاکستان میں سی این بی سی کے ساتھ بحیثیت بیورو ہیڈ منسلک تھی تو مجھے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے برسلز اور بارسلونا کے دورے پر انکے ساتھ جانے کا موقع ملا ، انہیں نیٹو ہیڈکوارٹر میں ایک خطاب بھی کرنا تھا۔ میں بہت پرجوش تھی کہ مجھے اس اہم دورے میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا ، لیکن مجھے یہاں بھی اسی مایوسی کا سامنا ہوا ، چارٹرڈ جہاز میں پر تعیش کھانے اور ساتھ ہی فایﺅ اسٹار ہوٹل میں پیش کیے جانےوالے مہنگے جوسز کا دور چلتا رہا جبکہ دورے پر اپنے ساتھ جانےوالے صحافیوں کے منہ سے بھی میں نے اس مہنگی عیاشی پر کوئی اعتراض ، کوئی تنقید نہیں سنی جبکہ ان میں سے کئی صحافی پرنسپل سیکرٹری کے ساتھ اپنی پسندیدہ جگہوں پر سرکاری پیسوں سے گھومنے کے منصوبے بناتے رہے ، ایک نوجوان صحافی کی حیثیت سے میں وزیراعظم کی نیٹو ہیڈ کوارٹر میں اہم ملاقاتوں کی رپورٹ کرنے کے منصوبے بنا کر آئی تھی مگر ہمارے وزیراعظم کسی اہم رہنما سے ملاقات ہی نہ کر سکے اور وہ صحافیوں کے ہاتھ بھی نہیں آئے ، انکی اہلیہ زیادہ تر شاپنگ میں مصروف رہیں جبکہ وزیراعظم مقامی رہنماو¿ں سے ہی ملاقاتیں کرتے رہے ، جب وزیراعظم کے خطاب کا وقت آیا تو میں اپنے ایک پرانے صحافی ساتھی جو اس وقت رائیٹر کیلئے کام کر رہا تھا ، اسکے ساتھ غیرملکی صحافیوں کی گیلری میں بیٹھی تھی۔ ہمارے وزیراعظم نے خطاب کا آغاز کیا اور گھبراہٹ میں بجائے یہ کہنے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک نہیں ہے یہ کہہ ڈالا کہ پاکستان دہشتگرد ہے ، پورے ہال میں سناٹا چھا گیا مگرپاکستانی صحافیوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں ، یہ تھا اس سارے دورے کا حاصل جس پر غریب عوام کے خون پیسے سے کمائے گئے کروڑوں روپے صرف ہوئے ، میں نے اس واقعہ پر دل گرفتہ ہو کر ایک کالم لکھا اور اسے عباس ناصر صاحب کو بھیج دیا انہوں نے جب یہ پڑھا تو مجھے بلایا اور کہا کہ فریحہ یہ میں چھاپ تو دوں مگر یہ سارے مگرمچھ تمہارے پیچھے پڑ جائینگے میں آج یہ سوچتی ہوں کہ ان کا مشورہ درست تھا ، مگر یہ خیال بھی آتا ہے کہ شاید انکے پاس آج بھی یہ کالم محفوظ ہو اور وہ اسے مجھے بھیج دیں ، شاید نئے پاکستان میں یہ پرانا کالم چھپ جائے ۔
وہ ملک جونوے ارب ڈالر کا مقروض ہے اور جس کا ہر پیدا ہونے والا بچہ سوا لاکھ کا قرض اپنی گردن پر لے کر جنم لیتا ہے ، وہاں عوامی پیسے کو کوئی بھی درد مند پاکستانی یوں لٹتے نہیں دیکھ سکتا ، فروری 2018 میں یونیسف کی رپورٹ میں دل دہلا دینے والا انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان نومولود بچوں کی اموات کے حوالے سے دنیامیں سب سے خطرناک ملک بن چکا ہے ، جبکہ اپریل 2018 میں ایوان صدر کے بجٹ میں 12 فیصد جبکہ وزیراعظم ہاو¿س کے بجٹ میں تقریبا 18 فیصد اضافہ کر دیا گیا ، اس طرح وہ ملک جہاں صحت پر رقم نہ خرچ کرنے کی وجہ سے لاکھوں معصوم بچے موت کے منہ میں جا رہے ہیں وہاں کے ایوان صدر پر عوامی پیسوں سے خرچ ہونے والی رقم کو بڑھا کر 1 ارب 3 کروڑ ساٹھ لاکھ کر دیا گیا جبکہ پاکستانی صدر کے بیرون ملک دوروں کا بجٹ 2 ارب 54 کروڑ روپے رکھا گیا اور وزیراعظم ہاو¿س کے بجٹ کو بڑھا کر 98 کروڑ 60 لاکھ کر دیا گیاتھا۔ اسکے علاوہ غریب قوم کے وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں کیلئے 1 ارب 89 کروڑ روپے خرچ کئے گئے۔ یہ سب کچھ اس ملک میں کئی سال سے ہو رہا ہے ، مگر اب ایک امید جاگی ہے کہ شاید عوامی پیسوں کو بے دردی سے لٹانے کا یہ عمل ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائےگا اور یہ ملک دردمندوں کا پاکستان بن جائےگا۔

مزیدخبریں