ضمنی انتخاب کا معرکہ اور اشرف گجر

Aug 28, 2018

اسلم خان…چوپال

اشرف گجر حقیقی معنوں میں فرزند اسلام آباد ہیں۔ یہ سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اشرف گجر نے تعلیم اسلام آباد میں ہی مکمل کی۔ وہ سرکاری کوارٹروں اور کرائے کے گھروں میں رہتے رہے ہیں اور 26 سال سے پیشہ وکالت سے منسلک ہیں۔محنت کشوں‘ تمام مزدور تنظیموں ‘ اخباری کارکنوں اور سرکاری ملازمین کی ایسو سی ایشنوں کے اللہ واسطے مفت وکیل رہ چکے ہیں۔ اسلام آباد کی تمام تاجر تنظیموں اور تاجر راہنماﺅں کے علاوہ تمام مسالک اور مذہبی قائدین سے ذاتی قریبی مراسم رکھتے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے بانی صدر اور اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ بار کے سابق صدر ہونے کے ناطے وکلا کا انہیں مکمل اعتماد حاصل ہے۔ وہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں سے رابطے میں رہتے ہیں ضرورت مندوں اور بے بس لاچاروں کےلئے انکے دروازے 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں مسیحی برادری بڑی سیاسی قوت ہے جو چوہدری اشرف سے خصوصی رشتہ استوار کئے ہوئے ہے۔
حکمران جماعت کی بھر پور مخالفت کے باوجود 2011ءمیں اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے پہلے اور بانی صدر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز انہیں حاصل ہوا۔ انہوں نے ملکی آئینی اداروں کے علاوہ فرانس، ترکی اور ملائشیا کی بار ایسوسی ایشنوں کے ساتھ تعلقات قائم کئے۔سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی بمباری سے24 فوجی افسران اور جوان شہید ہوئے تو انہوں نے ضلع کچہری سے ڈپلومیٹک انکلیو تک اسلام آباد کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی کی قیادت کی۔ پیرس بار ایسو سی ایشن اور اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے درمیان باہمی تعاون کے پاکستان کی تاریخ کے پہلے بین الاقوامی معاہدے کا سہرا بھی انکے سرہے۔
پاکستان الیکڑانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے رکن کی حیثیت سے چیئرمین ابصار عالم کی نواز شریف کی خوشنودی کیلئے بھارت نواز پالیسیوں سے شدید اختلاف کرنے والا چوہدری اشرف گجر ہی تھا۔ جب ایک وفاقی وزیر کے اشارے پر سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری اطلاعات ، چیئرمین ایف بی آر کے ووٹوں کیوجہ سے پاکستان مخالف فیصلے ہو رہے تھے تو وہ مستعفی ہوگئے۔انکے پیمرا سے استعفیٰ کی کہانی بھی بڑی انوکھی اور حیران کن ہے صدر پاکستان نے جب تین ماہ تک استعفیٰ منظور نہ کیا توانہوں نے وزیراعظم کو خط لکھ کر کہا کہ صدر پاکستان سے ان کا استعفیٰ منظور کرایا جائے۔وہ پہلے ممبر پیمرا تھے جنہوں نے پیمرا سے کسی بھی قسم کا اعزازیہ یاتنخواہ وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ حکومت نے انہیں عملدرآمد ٹریبونل برائے اخباری ملازمین(ITNE) کا چیئرمین بنانا چاہا، جو مراعات اور پروٹوکول کے لحاظ سے سپریم کورٹ کے جج کے مساوی تھا۔ سیکریٹری وزارت اطلاعات نے ا±نکی تقرری کیلئے سمری وزیراعظم کو ارسال کردی لیکن مسلم لیگ ن کی پالیسیوں سے نالاں ہونےکی وجہ سے انہوں نے یہ منصب سنبھالنے سے معذرت کرلی۔انہیں وزیراعظم عدالتی اصلاحات کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا جبکہ پشاور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اور وفاقی سیکریٹری قانون و انصاف جسٹس رضا کو ا±ن کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا۔
انہوں نے پاکستانی عوام کو جلد، سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کیلئے نہایت جامع اور عملی نوعیت کی سفارشات مرتب کرکے وزیراعظم کو پیش کیں۔ کئی بار وزیراعظم کو بریفنگ کا وقت طے ہوا لیکن وہ اس نہایت اہم معاملہ کیلئے وقت نہ نکال سکے۔عدالتی اصلاحات کے انکے کام کی اہمیت اور سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے چیئرمین سینٹ رضا ربانی کی دعوت پر انہوں نے سینیٹرز کو بریفنگ دی اور انکی داد سمیٹی۔ عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کےلئے انکے خلوص اور عرق ریزی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ تین ماہ تک موصوف وکالت چھوڑ کر وزارت قانون میں بیٹھتے رہے اور اس دوران ایک روپیہ بھی کسی بھی مد میں وزارت سے وصول کرنا گناہ تصور کیا۔
اشرف گجر کو نوازشریف نے 2011 میں بذات خود مسلم لیگ ن میں شمولیت کی دعوت دی تھی۔ اشرف گجر مسلم لیگ ن کی منشورمرتب کرنےوالی کمیٹی برائے قانون میں رہے اور سینٹرل کور کمیٹی میں بھی رہے۔ مسلم لیگ ن کی لیبر پالیسی مرتب کی۔ نون لیگ نے زعم ِتکبر میں سب کچھ ضائع کردیا۔ عمران خان کیا کرینگے اصلاح احوال کی طرف جائینگے یا غلطیاں دہرائیں گے۔ مگر انکے پاس غلطیوںکی گنجائش نہیں ہے! (ختم شد)

مزیدخبریں