کسی نے درست کہا ہے :
Promises are the cheapest commodity available with A candidate .
(ہر سیاست دان کی پٹاری وعدوں کی جنس ارزاں سے بھری ہوتی ہے۔) الیکشن جیتنے کےلئے امیدوار اور پارٹیاں ہرجتن کرتی ہیں۔ عوام کو ورغلانے ، بہلانے اور پُھسلانے کےلئے وعدوں کی قوس و قزح دکھائی جاتی ہے۔ آسمان سے تارے نوچ لائیںگے۔ من وسلویٰ اترے گا نہیں بلکہ برسے گا۔ روٹی کپڑا، مکان کا نعرہ تو فرسودہ ہو چکا ہے۔ یہ اس سے بھی کئی قدم آگے بڑھ کر عوام کی امیدوں، امنگوں، آرزوﺅں اور ارادوں کو مہمیز لگاتے ہیں۔ ارضی جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق نے الیکشن سے قبل لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ مزدور کی تنخواہ پچاس ہزار روپے کر دی جائےگی۔ نیک انسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا بھرم رکھ لیا۔ الیکشن ہار گئے وگرنہ اس قدر خطیر رقم کا بندوست کہاں سے ہوتا ہے۔ انکی پارٹی کا نعرہ تھا۔ ملک کی لوٹی ہوئی رقم فی الفور واپس لائیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت سلیمانؑ نے ملکہ بلقیس کا تخت چشم زدن میں منگوایا تھا۔
پچھلے الیکشن میں چھوٹے میاں صاحب نے قطعیت کے ساتھ کہا تھا چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کر دینگے۔وگرنہ نام بدل دینا، لوڈشیڈنگ پانچ سال میں بھی ختم نہیں ہو سکی لیکن باوجود کوشش کے مخالفین نام نہیں بدل سکے اسکی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہوں نے اپنا نام خود ہی بدل دیا ہے ۔ پہلے خادم اعلیٰ بنے پھر خادم پنجاب کا چولا پہنا۔ جذبات میں آ کر پچھلے الیکشن کی وکٹری سپیچ میں نوکر عوام کہہ بیٹھے وہ تو بھلا ہو کسی مشیر کا جس نے سمجھایا حضرت HUMAILITYکو اس حدتک نہ لے جائیں کہ Humiliation ، کی حدوں کو چھونے لگے۔ زرداری کا پیٹ پھاڑنے والی بات غالباً غصے کے عالم میں کی ہوگی۔ زیرک انسان ہیں۔ اتنا تو جانتے ہیں کہ اس قسم کی حرکت دفعہ 302 کے زمرے میں آتی ہے پھر دنیا میں کون سا شخص ہے جو تجوری کی بجائے خزانے کو پیٹ میں رکھتا ہے؟ حالیہ دنوں اسی زرداری کےساتھ انکی گاڑھی چھننے لگی تھی۔ وزارت عظمیٰ کے ووٹ کیلئے اسکی سپورٹ کے طلب گار تھے۔
پتہ نہیں ہمارے میڈیا کو کیا ہو گیا ہے کہ سیاست دانوں کو انکے پرانے بیانات یاد دلا رہے ہیں۔ عمران خان بھی انکی تنقید کی زد میں ہے۔ اسے بتایا جا رہا ہے کہ کسی وقت اس نے پرویزالٰہی کو ڈاکو کہا تھا۔ شیخ رشید کو حقارت کی نظر سے دیکھتاتھا۔ ایم کیو ایم کو ٹولہ قاتلین کہتا تھا۔ آج وہی پرویزالٰہی ،خان کی قدر، معاونت اور مشورے سے اسپیکر صوبائی اسمبلی بن گئے۔ شیخ رشید کو مرکز میں ریلوے کی وزارت دے دی گئی ہے۔ ایم کیو ایم کے ساتھ تحریری معاہدے کی شکل میں پیار کی پینگیں بڑھائی گئیں۔ ذاتی طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی اچنبھے والی بات نہیں ہے۔ سیاست میں اس قسم کی بیان بازیاں چلتی رہتی ہیں۔ اس اقلیم میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔ دائمی حقیقت ذاتی مفاد ہے۔ کسی زمانے میں میاں نوازشریف نے شیخ رشید کو محترمہ بے نظیر کیخلاف باقاعدہ چھوڑ رکھا تھا۔ پیلے رنگ کے حوالے سے جو ہرزہ سرائیاں کیں۔ وہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایک حصہ ہیں اب شیخوبابا نے اپنی توپوں کا رخ میاں صاحب کی طرف موڑ دیا ہے۔ اگرشیخ صاحب کو ڈارلنگ آف الیکٹرانک میڈیا کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کسی اینکر کا کیسا ہی خشک پروگرام کیوں نہ ہو، یہ اس میں ترو تازگی لے آتے ہیں۔ برہنہ گفتاری میں بھی ایک سلیقہ آ گیا ہے۔ دشنام طرازیاں، تشبیہ، استعاروں اور علامتوں کے ریشمی تھانوں میں لپیٹ کر مخالفین پر پھینکتے ہیں۔ الیکشن سے قبل عمران خان نے جو وعدے کئے ہیں۔ انہوں نے ستر برس سے ستائے ہوئے عوام کو یقیناً متاثر کیا ہے۔ انہوں نے ووٹ کی شکل میں خان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ گو وعدوں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن چند چیدہ وعدے درج ذیل نہیں۔
(1) ایک کروڑ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ (2) پچاس لاکھ مکان بنائے جائیں گے۔ (3) کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائےگا۔ (4) ٹیکس کی رقم کو چار ہزار ارب سے بڑھا کر آٹھ ہزار ارب تک لے جایا جائےگا۔ (5) زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائیگا۔ (6) سادگی کو شعار بنایا جائیگا۔ وزیراعظم ہاﺅس اور گورنروں کے محلات کو پبلک لائبریریوں اور تعلیمی درسگاہوں میں بدل دیا جائیگا (7) فارسی زبان کا محاورہ ہے چوں کفر از کعبہ برخیزد کجاماند مسلمانی ! احتساب کا عمل اوپر سے شروع کیا جائے گا۔ (8) بیرون ملک رہنے اور جانیوالے پاکستانیوں کی عزت نفس بحال کی جائےگی۔ سبز پاسپورٹ دیکھ کر کسٹم اور امیگریشن کا عملہ حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا اور نہ پاسپورٹ ہولڈر کسی قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہوگا (9) خان کی خلوص نیت پر تو شک نہیں کیا جا سکتا ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا البتہ ایک بات پوچھی جا سکتی ہے کہ اس مینی فسٹو پر ہوم ورک کتنا کیا گیا ہے؟ آئیے اس منشور کا ایک نمایاں مقصدیت کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔ پچاس لاکھ مکانوں کی تعمیر اور ایک کروڑ لوگوں کو روزگار مہیاکرنے کے منصوبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اگر واقعی پچاس لاکھ مکان تعمیر ہو جائیں تو روزگار کے ان گنت مواقع بھی فراہم ہونگے کیونکہ اسکے ساتھ دس پندرہ انڈسٹریز جڑی ہوئی ہیں۔ سیمنٹ ،سریا، اینٹیں، لکڑی، سینٹری ، الیکٹرک وائیرز کے کارخانے چوبیس گھنٹے کام کرینگے۔ اس منصوبے میں حکومت کو دو مسائل کا سامنا ہوگا : مکانوں کی قیمت ایک عام آدمی کی پہنچ میں ہو۔ یہ کام سرکاری زمین پر ہوسکتا ہے۔ جو آج کل شہروں اور قصبوں میں دستیاب نہیں ہے۔ محمد خان جونیجو اور اس سے پہلے بھٹو مرحوم کے زمانے میں یہ منصوبے ناکام ہو چکے ہیں۔ جونیجو نے گنتی کے جو مکان بنوائے وہ جنگلوں میں بنے کیوں کہ سرکاری زمین صرف وہاں دستیاب تھی پھر اسکے سیکرٹری ہمایوں فیض رسول نے ایک ”نادر“ مشورہ دیا، تعمیر کا کام کرپٹ پٹواریوں کو سونپا جائے نتیجتاً جو کاغذی مکان بنے ان میں جنگلی گیڈر رات کو قیام کرتے تھے۔ (باقی آئندہ)
خان نے ایک ایک درخت لگانے کا دعویٰ کیا ہے، اسے اپوزیشن نے ماننے سے انکار کر دیا، چاہئے تو یہ تھا کہ باہر سے غیرجانبدار ماہرین بلا کر باقاعدہ اسکی تصدیق کرائی جاتی تاکہ مخالفین کا منہ بند ہوسکتا۔
جہاں تک ٹیکس کی رقم کو چار ہزار ارب سے آٹھ ہزار کرنے کا سوال ہے یہ مشکل کام ضرور ہے ناممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ بالخصوص امیر تاجرطبقہ اصل ٹیکس کا عشرعشیر بھی نہیں دیتا۔ ذاتی منفعت اور لالچ کے علاوہ بھی کئی وجوہ ہیں، ایماندار ٹیکس گزار کا جینا انکم ٹیکس کا عملہ مشکل کردےگا، کوئی کتنی رقم بھی جمع کرائے عملے کو اس کا حصہ چاہئے۔ پھر لوگوں کو خیال آتا ہے کہ اوپر کرپٹ حکمران بیٹھے ہیں۔ وہ اس رقم کو اللوں تللوں پر خرچ کردینگے، تعمیر اور رفاہی کاموں پر خرچ نہیں ہوگی چنانچہ ضروری ہے کہ ذاتی کردار سے لوگوں کا اعتماد بحال کیا جائے۔
اگر شوکت خانم کی مثال سامنے رکھیں تو امید ہے کہ بیرون ملک پاکستانی ملک میں سرمایہ کاری کرینگے۔ سابقہ حکومتوں نے یہ کام ناممکن بنا دیا تھا مثلاً کوئی باہر کا سرمایہ کار ملک میںکوئی بڑا پراجیکٹ نہیں لگا سکتا تھا اس کے لئے حکمرانوں کی خوشنودی اور حصہ ضروری تھا۔ ملک کے ایک سرمایہ کار نے ایک طویل عرصہ تک اسلام آباد اور لاہور میں کوئی فائیو سٹار ہوٹل نہیں بننے دیا کیونکہ ہوٹل بزنس میں اس کی مناپلی تھی اور اسکی حکمرانوں سے ساز باز تھی۔ نتیجتاً باہر سے کسی سرمایہ کار نے کیا آنا تھا اندر والے بھی اپنے سرمائے کو باہر لے گئے۔ اسد عمر نے بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے انویسٹمنٹ بانڈز جاری کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ چند ماہ میں پتہ چل جائیگا کہ لوگ حکومت پر کتنا اعتماد کرتے ہیں!
ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے کافی لوگوں نے ڈر اور خوف کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ دولت ظاہر کرنےوالوں کیخلاف بھی کارروائی ہوگی۔ اس سکیم کی مدت کو بڑھا دیا جائے۔ یہ بڑی عجیب بات ہوگی کہ آدھے لوگ مستفید ہوجائیں اور اسی کیٹگری کے بقیہ ”مشق ستم“ بنیں۔ یہ بات قدرتی انصاف کے اصولوں کیخلاف ہوگی۔
حکومت کا سادگی اور کفایت شعاری اپنانے کا عندیہ محل نظر ہے۔ لیکن یہ سادگی کاسمیٹک نہیں ہونی چاہئے۔ Misplaced Enthusiasm بھی نقصان دہ ہوگا۔ ہمارے پیش نظر پڑوسی ملک کی مثال موجود ہے۔ وہاں وزیراعظم ماروتی (سوزوکی کاورشن) کار میں سفر کرتا ہے اگر مجبوری نہ ہو تو عام جہاز میں بیرون ملک دورے پر جاتا ہے۔ کھدر کے کپڑے زیب تن کرتا ہے، خوراک تو ویسے ہی لالوں کی مشہور ہے۔ ابلے ہوئے چاول اور دال ساگ۔ کانگرس پارٹی کے اجلاس فرش پر بیٹھ کر ہوتے ہیں یہاں ایک لطیفہ نما حقیقت کا بیان کرنا خالی ازدلچسپی نہ ہوگا۔ پچھلی مرتبہ میاں صاحب کو مشورہ دیا گیا کہ واجپائی جہاز کا ٹکٹ کٹا کر امریکہ دورے پر گیا ہے آپ بھی ایسا ہی کریں۔ چنانچہ اخباروں میں باقاعدہ تشہیر کی گئی کہ میاں صاحب کے سینے میں ملک و قوم کا درد جاگ اٹھاہے۔ انہوں نے عزم کیا ہے کہ وہ جہاز میں ٹکٹ کٹا کر امریکہ جائینگے۔ فرسٹ کلاس میں سفر کرکے وہ طوعاً و کرہاً امریکہ پہنچ تو گئے لیکن انہوں نے مشیروں کی ایسی تیسی کر ڈالی۔ اوئے بدبختو یہ کیا غلط مشورہ دیا ہے۔ ”پھٹوں پر بیٹھ کر میرے پاسے دکھنے لگے ہیں“ رات کو ہوٹل ورلڈ آف اسٹوریا میں انہیں نیند نہ آئی کیونکہ مالشیا اسلام آباد چھوڑ آئے تھے۔ صبح پہلی فلائٹ سے اسے امریکہ بھجوایا گیا۔ اسکے بعد میاں صاحب نے ساری زندگی کیلئے ”توبہ“ کرلی۔ عمران نے پنجاب ہاﺅس میں رہنے کا عندیہ دیا تھا۔ رقبہ کم ہونے کے باوصف یہ کسی طرح بھی وزیراعظم ہاﺅس سے کم سج دھج نہیں رکھتا۔ میاں نوازشریف نے ایک خطیر رقم خرچ کرکے اسکی تزئین و آرائش کی تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کو اس میں ٹھہرایا گیا تھا۔ خان پنجاب ہاﺅس میں مقیم نہیں ہوئے ملٹری سیکرٹری کے گھر کو مسکن بنایا ہے۔اب وزیراعظم ہاﺅس کا کیا بنے گا؟ اس میں نہ تو کوئی یونیورسٹی بن سکتی ہے اور نہ کالج، گنتی کے چند کمرے ہیں جو سنٹرلی ایئرکنڈیشنڈہیں۔ ان میں کلاسیں نہیں لگ سکتیں۔ اسی قسم کا اعلان میاں شہبازشریف نے کیا تھا۔ پرویزالٰہی کے بنائے ہوئے سی ایم سیکرٹریٹ کو آئی ٹی یونیورسٹی بنا دےنگے۔ ایسا کرنا عملاً مشکل تھا۔ نتیجتاً میاں صاحب کو اسے بطور دفتر استعمال کرنا پڑا۔ اب ذرا گورنر ہاﺅسز کی مثال لے لیں۔ چھ مربع زمین پر کالج یا لائبریری بنانا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے۔ لاہور کے دل میں مہنگی ترین زمین! گورنر کا دفتر تو آٹھ دس کمروں پر مشتمل ہے۔ اسی زمین کو اگر کمرشل بنیادوں پر بیچا جائے تو لاہور کے مشرق مغرب شمال اور جنوب میں چار ہسپتال اور چار یونیورسٹیاں بن سکتی ہیں۔ وزیراعظم ہاﺅس سکیورٹی کی بنا پر بک بھی نہیں سکتا۔ ایوان صدر اور پارلیمنٹ بلڈنگ بالکل قریب۔ حکومت کو چاہئے کہ کوئی کام بھی محض کی مشہوری یا سستی پبلسٹی کیلئے نہ کرے۔ ہر پراجیکٹ کا ایک نمایاں مقصدیت کے ساتھ جائزہ لے۔ پھر کل کلاں جب یہ حکومت چلی جائے تو کیا ضمانت ہے کہ آنے والی حکومت پرانی روش اختیار نہیں کرےگی۔ ملک اور شہر لاہور میں جو لائبریریاں ہیں وہ ویسے ہی ”بھاں بھاں“ کررہی ہیں۔ لوگوں میں پڑھنے کا شوق بتدریج ختم ہورہا ہے۔ اگر کوئی ضروری انفارمیشن لینی ہو تو موبائل فون استعمال ہوتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ نہ ہو کہ بازوﺅں سے کان لمبے ہوجائیں۔ ایک وزیراعظم ہاﺅس کھنڈر بن جائے اور دوسرے پر اتنے ہی اخراجات اٹھ رہے ہوں۔
عمران نے ایک نئے پاکستان کا وعدہ کیا ہے۔ شب گزیدہ سحر کی بجائے صبح نو کی نوید دی ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا کیونکہ یہ خان اور پاکستان کیلئے آخری موقع ہے۔