شاذیہ سعید
shazi1730@hotmail.com
عید الاضحیٰ جسے حرف عام میں بقرہ عید اور بڑی عید بھی کہا جاتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس برس بھی بڑی عید پر سوشل میڈیا پرقربانی کے جانوروں کے حوالے سے کافی ہل چل دیکھنے کو ملی۔ عید سے ہفتہ بھر پہلے خریدے گئے قربانی کے جانوروں کی خوب ریل پھیل لگی رہی۔کہیں سیلفیاں کھینچی جا رہی ہوتی ہیں تو قیمتیں بتا کر اپنی حیثیت کا چرچا کیا جارہا ہے۔ جانوروں کے شجرہ نسب پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔سوشل میڈیا پر قربانی کے مسائل ، مختلف احادیث مبارکہ، فضائل ، کے ساتھ ساتھ جانوروں کے ساتھ سیلیفیاں اور جانوروں کی گھر پر اتارنے کی ویڈیوز خوب شیئر کرتے ہیں۔حسب سابق ایک خاص ایجنڈے کے تحت مہنگے قربانی کے جانوروں کے بجائے بھوکوں کو کھانا کھلانا، دکھی انسانیت کی مدد ، ڈیم و دیگر جانب خرچ کرنے کی ترغیب دینے والوں کا بھی قلعہ گرم رہا۔
دیکھا جائے تو ہر گزرتے دن کے ساتھ عید کے تہوار میں سوشل میڈیا کا رنگ نمایاں نظر آنے لگا ہے۔ کبھی تو عید پر قربانی کے جانور لے کر ہم گھنٹوں گلیوں میں گھوما کرتے تھے جس پر امی سے مہندی سے چاند ستارہ اور جانور کا نام لکھواتے تھے۔ آج کل عید بس سوشل میڈیا کے سہارے ہی منائی جاتی ہے جہاں پر جانوروں کی بچوں کے ساتھ منفرد تصاویر اور ویڈیوز شئیر کی جاتی ہیں۔ جب ہم عید پر سوشل میڈیا کی بابت بات کر رہے ہیں تو کیوں نہ سوشلستان کے چند باسیوں سے ان کی عید قرباںکا احوال بھی جان لیا جائے۔ سماجی کارکن باسط صبحانی کہتے ہیں کہ وہ عید کا تہوار کئی برسوں سے مسکین، نادار اور ضرورتمند افراد کے ساتھ مناتے آرہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ ہم ہر سال عید کے موقع پر بچوں میں تحائف تقسیم کرتے ہیں اور قربانی کا گوشت مستحقین میں بانٹتے ہیںکیونکہ یہی عید کی اصل روح ہے جسے آج کل کے نوجوان فراموش کر چکے ہیں۔سوشل میڈیا پر عید منانے کی بات کریں تو آج کل تو قربانی کا جانور بھی سوشل میڈیا پر ہی خریدا جاتا ہے اور اسکی قربانی بھی یہی پر دینے کا رواج چل پڑا ہے۔
پر ڈیوسر حسن جلیل اس موقع پر کہتے ہیں کہ: اس برس میں نے عید اپنے آفس میں کام کرتے ہوئے گزاری جبکہ شام کو اپنے دوستوں کے ہمراہ گھومنے چلا گیا۔ آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دینا بہت آسان ہو گیا ہے۔ ہم واٹس ایپ اور فیس بک پر ایک میسج لکھ کر اسے بیشمار نمبرز پر ایک ہی بار میں بھیج سکتے ہیں۔ لیکن قربانی کا گوشت ہم سوشل میڈیا پر دکھا تو سکتے ہیں بانٹ نہیں سکتے۔اسی لئے قربانی کے گوشت سے رات کو سب لو مل کر اپنے گھروں سے مزے مزے کے کھانے بنا کر لاتے ہیں اور آفس میں بیٹھ کر مزے سے کھاتے ہیں اور یوں ہماری عید قرباں گزر جاتی ہے۔
ہاؤس وایف شازیہ سید اس حوالے سے کہتی ہیں کہ عید کا تہوار ہمیشہ اپنوں کے سنگ منانا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے بچوں اور لوگوں کے ساتھ عید منائیں جن کے ساتھ ان کے گھر والے موجود نہیں ہے۔سوشل میڈیا نے جہان یہ آسانی کر دی ہے کہ ہم اپنے دور دراز مقیم رشتہ داروں کو بھی عید وشکر سکتے ہیں وہیں قریبی لوگوں کو دور بھی کر دیا ہے کیونکہ اب ہ محض گھر میں بیٹھے انہیں مبارکباد دے دیتے ہیں۔ ملنے جلنے کا رجحان ناپید ہوتا جا رہا ہے۔قربانی کے جانور کی بات کروں تو میں حسہ وغیرہ ڈال لیتی ہوں اور جب گوشر گھر آجاتا ہے تو اسے سنت کے مطابق تقسیم کر دیتی ہوں۔
ریڈیو پروڈیوسر مسعود ملہی کا کہنا تھا کہ جن لوگوں سے صرف میڈیا تک ہی واسطہ ہے کبھی آمنہ سامنا نہیں ہوا انہیں ایس ایم ایس کے ذریعے عید می مبارکباد دی لیکن کچھ سے ملے بنا عید کا احساس ہی نہیں ہوتا لہذا ان سے ملنے بھی گئے۔قربانی تو ہر سال کی طرح سال بھی اپنے آبائی گھر جا کر سب بہن بھائیوں کی ساتھ کی کیونکہ یہ ہمارے خاندان کی روایت ہے ہم کہیں بھی ہوں عید قربان پر سب مل کر جانور خریدتے ہیں اور پھر سب ساتھ ہی سے ذبح بھی کرتے ہیں۔ ہم باہر سے قصائی نہیں بلواتے بلکہ گھر میں سے کوئی فرد اٹھ کر جانور ذبح کرنے کی ذمہ داری لے لیتا ہے اور یوں ہماری عید گزر جاتی ہے۔ ہمیں سوشل میڈیا پر اجانوروں کی تصاویر ڈالنے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی اتنا وقت ملتا ہے سوشل میڈیا کو استومال کر لیا جائے ہاں البتہ فرصت ملتے ہی دوسروں کی لگائی گئی پوسٹ پڑھ کر لطف اندوز ضرور ہوتے ہیں۔