سیف اللہ سپرا
عید کا تہوار فلمی حلقوں کے نزدیک اہمیت کا حامل ہے وہ اس لحاظ سے کہ اس موقع پر نئی فلمیں ریلیز ہوتی ہیں جس سے ان کا کاروبار چمکتا ہے اور وہ پیسے کماتے ہیں لہٰذا ہر فلمساز و ہدایت کار کی کوشش ہو تی ہے کہ وہ عید کے موقع پر اپنی فلم ریلیز کرے۔ اس عید پر تین اردو فلمیں ریلیز ہوئیں ۔جن میں پرواز ہے،جنون، لوڈ ویڈنگ اور جوانی پھر نہیں آنی 2 ہیں۔ فلم ’’پرواز ہے جنون‘‘ کے ڈائریکٹر حسیب حسن ہیں اور پروڈیوسرز مومنہ درید ہیں۔ رائٹر فرحت اشتیاق ہیں کاسٹ میں حمزہ علی عباسی، احد رضا میر، ہانیہ عامر، شاذ خان، کبریٰ خان، شفاعت علی، عدنان جعفر، سکندر ونسنٹ، ریچل و کاجی، مصطفیٰ چنگیزی، سبین سید، علمدار خان، مرینہ خان، آصف رضا میر، حنا خواجہ بیات، شمعون عباسی اور فرحان علی آغا شامل ہیں۔ اس فلم میں پاکستان ائیر فورس کے جوانوں کو ٹریبیوٹ پیش کیا گیا ہے۔ عید پر ریلیز ہونے والی دوسری فلم ’’لوڈ ویڈنگ‘‘ ہے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر نبیل قریشی ہیں پروڈیوسر فضہ علی میرزا اور مہدی ہیں۔ رائٹر فضہ علی میرزا، نبیل قریشی اور محسن عباس حیدر ہیں۔ کاسٹ میں فہد مصطفیٰ ، مہوش حیات، ثمینہ ا حمد، فائزہ حسن، نورالحسن، قیصر پیا، انجم حبیب، غزالہ بٹ اور محسن عباس حیدر شامل ہیں۔ اس فلم کا میوزک شانی ا رشد نے ترتیب د یا ہے۔ سنیما ٹوگرافی رانا کامران کی ہے۔ ایڈیٹر آصف ممتاز ہیں۔ پروڈکشن کمپنی فلم والا پکچرز ہے۔ عید پر ریلیز ہونے والی تیسری فلم ’’جوانی پھر نہیں آنی 2 ‘‘ ہے۔ دراصل یہ فلم جوانی پھر نہیں آنی کا سیکوئل ہے جو 2015ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ندیم بیگ ا ور پروڈیوسر سلمان اقبال، ہمایوں سعید ہیں فلم کے رائٹر واسع چودھری ہیں۔ کاسٹ میں فہد مصطفیٰ ، ماوریٰ حسین، سہیل احمد، عمر شہزاد اور مہوش حیات شامل ہیں۔ تاہم حکومت کی طرف سے عائد پابندی کی وجہ سے اس عید پر بھارت کی کوئی فلم ریلیز نہیں ہوئی۔ عید پر ریلیز ہونے والی تینوں فلموں نے مناسب بزنس کیا ہے اور ہرعید پر ریلیز ہونے والی فلمیں مناسب بزنس کر جاتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عید پر چھٹیاں ہوتی ہیں اور ان چھٹیوں میں تقریباً ہر فیملی تفریح کے لئے گھر سے باہر نکلتی ہے اور کوئی نہ کوئی فلم دیکھتی ہے۔ اس طرح عید کی تقریباً سبھی فلمیں مناسب بزنس کر جاتی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اب اچھی فلمیں بننا شروع تو ہو گئی ہیں مگر انتہائی تھوڑی تعداد میں ایک زمانہ تھا کہ عید پر کم از کم چھ سے آٹھ فلمیں ریلیز ہوتی تھیں۔ اس عید پر صرف تین ریلیز ہوئی ہیں۔ مجموعی صورتحال یہ ہے کہ سال کے 8 مہینے گزر چکے ہیں جن میں دو عیدیں بھی شامل ہیں اب تک ان آٹھ مہینوں میں صرف دس فلمیں ریلیز ہوئی ہیں۔ جن کا بزنس قابل ذکر نہیں۔ فلموں کا بزنس تو اس وقت ہوتا تھا جب پاکستان فلم انڈسٹری عروج پر تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا سٹوڈیو ’’باری سٹوڈیو‘‘ فلمساز باری ملک نے صرف ایک فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ سے بنایا تھا اب حالات یہ ہیں کہ فلم ہٹ بھی ہو جائے تو بمشکل فلم کی لاگت پوری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار اس کاروبار میں پیسے نہیں لگاتے۔ اس کاروبار میں بہتری نہ آنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے سنجیدہ لیا ہی نہیں گیا۔ آج کل کراچی میں ٹی وی کی پروڈکشنز ہو رہی ہے۔ وہی ٹی وی کے پروڈکشن ہائوسز انہی رائٹرز ڈائریکٹرز اور فنکاروں سے فلمیں بنا رہے ہیں جن سے وہ ٹی وی ڈرامہ بنا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹی وی ڈرامہ ایک الگ صنف ہے اور فلم ایک الگ۔ جس کاروبار پر مناسب توجہ نہ دی جائے تو پھر اس کاروبار کا وہی حشر ہو گا جو پاکستان میں فلمسازی کا ہو رہا ہے جب فلم انڈسٹری عروج پر تھی تو لاہور فلمسازی کا مرکز تھا سالانہ ڈیڑھ سو سے پونے دو سو تک فلمیں بنتی تھیں شاہ نور، باری ، ایورنیو اور شباب سٹوڈیوز میں قائم ہر فلور پر روزانہ فلموں کی شوٹنگز ہوتی تھیں۔ نگار خانے پوری طرح آباد تھے فلمسازوں اور اس سے وابستہ شعبوں سے لوگ کروڑوں کماتے تھے ۔ وہ اس لئے کہ لوگ اس کاروبار سے مخلص تھے ، فلموں کے موضوعات پر بہت کام ہوتا ، پھر سکرپٹ لکھے جاتے ۔ میوزک پر بہت محنت ہوتی پھر ڈائریکشن ایکٹنگ سینماٹوگرافی غرضیکہ فلم کے سبھی شعبوں پر بہت محنت ہوتی۔ فلمسازی میں ایک اہم حصہ اس کی مناسب تشہیر اور پبلسٹی کا ہوتا اس پر بہت توجہ دی جاتی ۔ پرانے دور میں تو فلم کی تشہیر اس دن سے ہی شروع ہو جاتی جس طرح فلم کی اوپنگ ہوتی یعنی اوپنگ والے دن میڈیا کے نمائندوں کو بلایا جاتا اس کے بعد شوٹنگ کے دوران بھی میڈیا کے نمائندے فلموں کے سیٹوں پر جاتے اور خبریں بناتے پھر میوزک ریلیز، فوٹو سیٹ اور دیگر تقریبات پر میڈیا کوریج کرتا آج کل فلموں کی تشہیر میں بھی فلمسازی کی طرح شارٹ کٹ میتھڈ اختیار کیا گیا ہے اور وہ ہے پی آر کمپنیوں کی خدمات ، اب فلمساز اپنی تشہیر کے حوالے سے پہلے تو کوشش کرتے ہیں کہ کوئی ٹی وی چینل ان کا پارٹنر بن جائے پھر تشہیر کے لئے پی آر کمپنیوں کی خدمات لے لیتے ہیں یہ کمپنیاں ایک آدھ چھوٹا موٹا فنکشن کرا کر تشہیر کا کام مکمل کر دیتی ہیں ۔
پی آر کمپنیوں والا شارٹ کٹ میتھڈ باقی مصنوعات کی تشہیر کے لئے تو کارگر ہو سکتا ہے مگر فلم یا ڈرامے کے لئے نہیں کیونکہ فلم یا ڈرامہ ایک تخلیقی پراڈکٹ ہے جس کی تشہیر کیلئے وہی طریقہ مناسب ہے جو فلم انڈسٹری کے عروج کے دنوں میں تھایعنی فلمسازی کے دوران صحافیوں سے فلم کی ٹیم خصوصاً فن کاروں کا رابطہ رہتا اور فلم شروع ہونے سے لیکر اس کی ریلیزتک اس فلم کی خبریں مختلف طریقوں سے لگتی رہتی تھیں اب فلمسازوں کی دیکھا دیکھی بعض فنکاروں نے بھی پی آر کمپنیوں کی خدمات حاصل کر لی ہیں جس سے فلمسازوں اور فنکاروں کا میڈیا کے نمائندوں سے رابطہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے جس کے نتیجے میں فلموں کی مناسب تشہیر نہیں ہوتی۔
یہ امر قابل ذکر ہے اگر فلمسازی کے کام کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو پھر فلم انڈسٹری کا یہی حال رہے گا جو گزشتہ تقریباً دو دہائیوں سے ہے افسوس کی بات ہے کہ فلمسازوں ، ہدایت کاروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ابلاغ اور تفریح کایہ اہم شعبہ مسلسل زوال کا شکار ہے اور اس کی بہتری کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں ہو رہی جوفلم میکرز کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔