کمپنیوں کی لمبی حدود سے گرفت کمزور، بجلی چوری میں اضافہ، ریکوری کم ہونے لگی

لاہور (ندیم بسرا) ملک میں بجلی کمپنیوں کی حدودچار سے دس اضلاع پر مشتمل ہونے سے ڈسکوز کے سربراہوں کی گرفت کمزور، بجلی چوری میں اضافہ اور ریکوری کم ہونے لگی،گزشتہ دس برس سے کمپنیوں میں نئی بھرتیاں نہ ہونے سے افسران اور لیبر کی قلت خطرناک حد تک بڑھ گئی،صورت حال یہی رہی تو آئندہ دو برسوں میں لائن میں سٹاف کو ڈھونڈناجوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا ۔ جو نئی حکومت کے درپیش چیلنجز میں مزید اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔ پنجاب میں بجلی کمپنیوں کی حدود چار سے دس اضلاع تک ہونے سے کمپنیوں کے افسران کی انتظامی گرفت کمزور ہوتی جارہی ہے ،کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز نئی پالیسیاں بنانے کی بجائے صارفین کے بجلی کے خراب میٹرز تبدیل،خراب ٹرانسفارمرز کو ٹھیک کرانے، ایل ٹی پرپوزل پر عملدرآمد کرانے پر لگے رہتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً 60 فیصد حصہ پنجاب میں ہے اور پنجاب کے بجلی صارفین کی تعداد پونے دو کروڑ کے قریب ہے جس میں لیسکو، فیسکو، میپکو، گیپکو اور آئسیکو صرف 5 کمپنیاں شامل ہیں ملتان کمپنی کا رقبہ ساہیوال ضلع سے شروع ہوتا ہے اور اس کی ایک حد پنجاب کے آخری ضلع ڈی جی خان سے اور رحیم یار خان سے ہوتے ہوئے صادق آباد (پنجاب کی آخری تحصیل) تک ملتا ہے۔ فیصل آبادالیکٹرک سپلائی کمپنی کی حدود ننکانہ ضلع سے شروع ہوتی ہے اور جھنگ سے آگے جاتی ہے۔ گوجرانوالہ الیکٹر ک پاور کمپنی کی حدود تین کمپنیوں لاہور، فیصل آباد اور اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی تک جا ملتی ہیں اس کی حدود میں نارووال بھی شامل ہے جس کا بارڈر بھارت کے ساتھ جا ملتا ہے۔ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی حدود میں چھ سے سات اضلاع شامل ہیں۔ لیسکو میں اوکاڑہ،ننکانہ، قصور، شیخوپورہ اور لاہور جیسا بڑا شہر شامل ہے۔ اس بارے میں مزید بتایا گیا ہے کمپنیوں کی حدودکئی کئی اضلاع پر مشتمل ہونے کی وجہ سے فیڈرز کی لائنیں بھی کئی سو کلومیٹرز تک جا پہنچتی ہیں، دوردراز علاقوں کی ان لائنوں پر بجلی چور با آسانی کنڈے ڈال کر بجلی چوری کر لیتے ہیں ۔ایک سب ڈویژن کا رقبہ بھی کئی کلومیٹرز پر محیط ہوتا ہے جس کو کنٹرول کرنا ایک ایس ڈی او کے لئے انتہائی مشکل ہو جاتا ہے ۔پاکستان کی سبھی بجلی کمپنیوں میں گزشتہ دس برسوں سے بھرتیاں نہیں ہو سکیں ایک کمپنی میں ایس ڈی اوز کی قلت بہت زیادہ ہے ایک سب ڈویژن کا چارج ایس ڈی او کی بجائے لائن سپرنٹنڈنٹ کو دیاجاتا ہے۔ لائن میں سٹاف کا اسی فیصد ایسا ہے جو پچپن سے اٹھاون برس کے درمیان ہے جو لائنوں اور کھمبوں پر نہیں چڑھ سکتے۔ بجلی کی وزارت وزیراعظم کے پاس ہے اس لئے وزیراعظم اور وزیر خزانہ اسدعمر کو چاہیئے پاکستان کی سبھی کمپنیوں کا رقبہ کم کیا جائے اور ایک سے دو اضلاع پر مشتمل بجلی کی کمپنی بنائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ بجلی کمپنیاں بنا کر ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے اور بجلی کے شعبے میں اضافی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
بجلی کمپنیاں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...