بر صغیر میں معیشت پر ہندوں کے ظالمانہ قبضہ۔ علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے پیغام و کلام کی اثر پذیری ۔قایداعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کی ولولہ انگیز مدبرانہ قیادت اور خاک و خون کے سمندر پار کرتی تحریک آزادی نے اس وقت کے انگریزحکمران اور ہندوں کی مشترکہ سازشوں اورکاوشوں کو ریت کی دیوار بنا دیا ۔ اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کی گونج نے مکرو فریب کے بتکدوں پر لرزہ طاری کیا اور پاکستان وجود پذیر ہو گیا ۔ تہی دست عوام اور کاروباری طبقہ نے پاک وطن کی سرزمیں پر قدم کھا اور سجدہ شکریہ ادا کیا ۔ قایداعظم کے فرمان کے مطابق کاروباری طبقہ نے نوزائیدہ مملکت خدادا د میں صنعت وتجارت کی سرگرمیاں شروع کیں البتہ بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کے وجودکو تسلیم کرنے کی بجائے پہلے دن سے اس کے خلاف معاشی اور سیاسی سازشوں کا آغاز کر دیا ۔ کشمیر کے بڑے حصہ کو متنازعہ قرار دلوانا انہی سازشوں کا حصہ تھا ۔ انڈیا کے اکثر و بیشتر حکمران مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کے لیے حیلہ سازیا ںکرتے چلے آ رہے ہیں ۔پاکستان پر بار بار جنگیں مسلط کرنا بھی بھارتی حکمرانوں کی مکروہ سازشوں کا حصہ ہے جہاں پاکستانی سپاہ کے دندان شکن جواب سے پسپائی کا راستہ ناپنا پڑا۔پاکستان کو شورش زدہ اور بد امنی کا شکار ملک بتا کر خارجہ سرمایہ کاری روکنے کی مسلسل کوششیں کرتا چلا آ رہا ہے ۔انڈیا کے موجودہ متشدد ہندو حکمران نریندر مودی نے عالمی مسلمہ قوانین اور اخلاقی حدوں کو مسمار کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا ہے ۔احتجاج کرنے والے واد ی کے لوگوں پر خون کی ہوکھیلی جا رہی ہے ۔ قتل و غارت گری کا صبح و شام بازار گرم رہتاہے ۔لاکھوں نوجوانوں اور عام افراد کو عقوبت خانوں میں ڈالا ہوا ہے ۔ کھانے پینے اور ادویات کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے ۔ بچوں عورتوں مردوں کی چیخ و پکار آہ و بکا اور بہیمیت کے خلاف اٹھنے والی آواز پر مودی سرکار اپنی غلطی تسلیم کرنے اور وادی پر غاضبانہ قبضہ ختم کرنے کی بجائے پاکستان پر ایٹمی حملہ کی دھمکیوں پر اتر چکا ہے ۔ پاکستان کے حکمران مودی سرکار کی کاروائیوں کے خلاف زبانی کلامی آواز ضرور اٹھاتے رہتے ہیں تاہم اس موقع پر ملک کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوط بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔گھر کے تمام افراد میں یکجہتی اور مضبوطی دیکھ کر بیرونی دشمن حملہ کرنے کی کسی طور کوشش نہیں کرے گا ۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ حکمران اور سیاست دان ملک میں یکجہتی کا ماحول پیدا کریں ۔ بھارتی حکمرانوں کی کامیاب چالبازیوں کا یہ عالم ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اس سے ملحقہ ریاستوں نے نریندر مودی کوا اپنے ہاں بلا کر دوستی اور کامیاب حکمران ہونے کا ہار پہنا دیا ہے حالانکہ مودی لاکھوں بچوں بوڑھوں اور نوجوانوں کا قاتل ہے ۔ مسلم ریاستوں کی طرف ہمیں کہا جاتا ہے کہ کل مسلم اخوہ لیکن سیاسی او ر معاشی دوستی نریندر مودی سے کی جا رہی ہے ۔لا محالہ ایسی سیاسی و معاشی دوستی دونوں ملکوں کے مابین معاشی سرگرمیوں بڑھانے کا باعث بنیں گی ۔ اس قسم کے گٹھ جوڑ سے پاکستانی حکمرانوں کی کمزور سفارتی حکمت عملی کا اظہار ہوتا ہے جو زیادہ توانائیاں اندرون ملک سیاسی مخالفین کو دبانے اور سیاسی میدان سے آوٹ کرنے پر صرف کر رہے ہیں ۔ امریکی قیادت پر تکیہ کرنا بھی خود کو اندھیرے میں رکھنے کے مترادف ہے ۔ ماضی میں انڈیا نے پاکستان پر جنگ مسلط کی تو امریکہ پاکستان کی امداد کے لیے بحری بیڑا بھیجنے کا اعلان کرتا رہا ۔ جنگ ختم ہو گئی لیکن امریکہ کا بحری بیڑا نہ پہنچ سکا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خاں کو اپنے ہاں بلایا دونوں طرف سے قربتوں کا ڈنکا بجایا لیکن عین اسی موقع پر مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے اور وہاں قتل عام کا عمل بد شروع کر دیا ۔
امریکہ اور متحدہ عرب امارات جیسے کمزور سہارو ں پر تکیہ کرنے کی بجائے اندرونی طور پاکستان کو مضبوط بنانا ہوگا ۔چند مرد و خواتین وزیروں مشیروں کی دن رات گوہر افشانیوں کو بریک لگانا ہوگی اور معاشرے میں مہر و محبت کی مہک عام کرنا ہوگی ۔ اختلافات اور الزامات کے جھکڑ جہاں بھی چلتے اور شدت اختیار کرتے ہیں ملک و قوم کی کمزوری و نقصان پر منتج ہوتے ہیں۔ ہادی بر حق رحمت عالم کی ھرف سے فتح مکہ کے تاریخی موقع پر مخالفین کے لیے لا تثریب الیکم الیوم کے اعلان نے عالمی اسلامی تحریک کی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیئے تھے ۔ مسلم حکمرانوں کو اندرون ملک حالات میں خوشگوار تبدیلیوں کے لیے رحمت عالم کے تاریخی الفاظ کو یاد رکھنا اور دشمن کی متوقع کاروائیوں کی روک تھاک کے لیے اپنے گھوڑے اور اسلحہ تیار رکھنے چاہئیں ۔ نیب جیسے اداروں کے طلم ہوش ربا کی پٹاری بھی سر دست سمیٹ دی جائے تو حکمرانوں کی نیک نامی میں اضافے کا سبب بنے گی ۔ آئی ایم ایف کے ارسال کردہ اور تعینات کردہ معاشی ماہرین کے وعدوں اور دعوں کی فصل بار آور نہیں ہو سکی البتہ ان کے اقدامات سے خوف زدہ معاشی سرگرمیاں سکڑ چکی اور بے روگاری بڑھ چکی ہے ۔ اس لیے ملکی ماہرین کی وسیع مشاورت سے محبت آمیز لائحہ عمل بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔