بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبوضہ کشمیر میں مہم جوئی میں اسے عالمی سطح پر جس ذلت و رسوائی کو برداشت کرنا پڑا ہے وہ اسکے مکروہ ارادوں اور انسانیت سوز مظالم میں بے پناہ اضافہ کی شکل میں سامنے آ چکے ہیں۔ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کرفیو لگا کر انکے گھروں میں تشدد و بربریت کو چھپانے کی اسکی ساری حکمت عملی بری طرح ناکام ہو چکی اور حریت و آزادی کے متوالوں کے حوصلے اور ارادے پوری دنیا میں دیکھے اور سراہے جا رہے ہیں۔ اقوام عالم اسی بربریت اور ظلم پر اپنے فرض اور قرض کی ادائیگی کرنے یا نہ کرنے سے بے نیاز مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمان ’’خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلمان کو ہے ننگ وہ پادشاہی‘‘ کے مصداق اپنی جان مال اولاد عزت آبرو سب کچھ قربان کر رہے ہیں اور مودی کے ظلم و بربریت کے آگے سینہ سپر ہیں۔ عالمی ضمیر یقیناً جاگے گا انکی قربانیاں رائگاں نہیں جائیں گی۔ جنگل کا یہ قانون جاری رہا تو پوری دنیا کا امن تباہ ہو جائیگا۔ ملک کے اندر مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کے علاوہ کانگرس نے بطور سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مودی کے ظلم و جبر پر سخت الفاظ میں احتجاج کیا ہے اور ڈر ہے کہ یہ احتجاج خوفناک خانہ جنگی کا روپ نہ د ھار لے جسے ختم کرنا یا کرانا کسی کے بس میں نہیں رہیگا۔
26 جون 1952ء کو بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو انکی پارلیمنٹ میں تقریر بھارتی پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں موجود بھی ہے اور محفوظ بھی۔ مودی اور اسکے انتہا پسند ساتھیوں اور پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی یادداشت کو تازہ کرنے کیلئے جواہر لعل نہرو کی دو تقاریر کا حوالہ دینے سے مقصد حاصل ہو سکتا ہے ۔ 26 جون 1952ء کو پارلیمنٹ سے خطاب میں نہرو کہتے ہیں ’’اگر ایک مناسب استصواب کے بعد کشمیر کے لوگوں نے یہ فیصلہ دے دیا کہ ہم بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو یقین کیجئے ہم اس کو قبول کرنے پر کاربند رہینگے ہرچند کہ ہم اسے بھاری دل سے اور تکلیف دہ صورتحال سے ہی قبول کریں مگر ہم ان کیخلاف فوج نہیں بھیجیں گے۔ ‘‘ اس خطاب کے بیالیس روز بعد 7 اگست 1952ء پھر اس پارلیمنٹ سے وزیر اعظم نہرو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ صرف کشمیر کے لوگ ہی ہیں جو کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں ہمیں خواہ کشمیر چھوڑنے کا کتنا ہی دکھ کیوں نہ ہو ہم کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس کشمیر میں نہیں رکیں گے ہم ان پر مسلط ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے‘‘
پارلیمنٹ میں جن دو تقاریر کا میں نے حوالہ دیا ہے وہ بھارت کی پارلیمنٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں اور انہیں ریکارڈ سے حذف نہیں کیا جا سکتا ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں کے نام بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کا وہ خط جو پاکستان کے قیام کے تین ماہ بعد 21 نومبر 1947ء کو لکھا گیا اس خط میں نہ صرف اپنے موقف کو پالیسی بیان بنا کر پیش کیا ہے بلکہ نہرو نے واضح طور پر لکھا ہے۔ ’’کشمیر کو اپنے الحاق کا فیصلہ استصواب سے کرنا چاہئے یا پھر ریفرنڈم سے جو اقوام متحدہ ایسے کسی عالمی ادارے کی نگرانی میں ہو۔‘‘ بھارتی وزیر اعظم کا یہ خط دراصل اس برقیہ یعنی تار اور اس پر لیاقت علی خاں کے ردعمل کی وضاحت یا یقین دہانی تھی اس تار میں جو 30 اکتوبر 1947ء کو بھیجا گیا تھا جواہر لعل نہرو لکھتے ہیں ’’ہماری یہ یقین دہانی کہ جونہی امن و امان قائم ہو گیا ہم اپنی فوجیں کشمیر سے ہٹا لیں گے صرف آپ کی حکومت ہی سے نہیں بلکہ کشمیری عوام اور پوری دنیا سے یہ عہد ہے۔ مجھے یہ وضاحت کرنے دیجئے کہ ہماری پالیسی شروع سے آخر تک یہی رہی ہے کہ دونوں مستعمرات سے الحاق کے متعلق اگر کوئی ریاست متنازعہ فیہ ہو تو فیصلہ ریاست کے عوام پر چھوڑ دیا جائے ۔ اس پالیسی کی پابندی کرتے ہوئے ہم نے الحاق کشمیر کی دستاویز میں ایک شق بھی شامل کر دی تھی۔ داخلی سطح پر 2 جنوری 1952ء کی جواہر لعل نہرو کی امرت بازار پتریکا میں عوامی اجتماع سے خطاب کشمیر کے بارے میں بھارتی حکومت کا سرکاری موقف سمجھا گیا اور سمجھا جاتا رہا ہے اس خطاب میں بھی مسٹر نہرو نے کہا تھا ’’کشمیر بھارت یا پاکستان کی جائیداد نہیں یہ تو کشمیریوں کا ہے۔ جب کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق ہوا تو ہم نے کشمیری لیڈروں پر یہ واضح کیا تھا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق کیا جائیگا جو یقیناً انہیں استصواب کا حق دے کر ہی پوری کی جا سکیں گی اگر وہ ہمیں کہیں گے نکل جائو تو میں کشمیر کو چھوڑنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرونگا ہم یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گئے تھے اور وہاں یہ مقدس عہد کیا تھا کہ ہم اس کا ایک پرامن حل نکالیں گے۔ ایک عظیم قوم کی حیثیت سے ہم عہد شکنی کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور پھر کون نہیں جانتا کہ 21 اپریل 1948ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر -47 اقوام متحدہ کے کمشن برائے بھارت و پاکستان کی 13 اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کی قراردادیں 29 مارچ 1951ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 19 جس کی توثیق و تائید 24 جنوری 1957ء کو قرارداد نمبر 122 میں کی گئی یہ سب قراردادیں عمل درآمد کی منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر اپنے مقدر کے فیصلہ کی منتظر۔ اب مودی نے جتنا بڑا قدم اٹھایا ہے بھارتی آئین کی روح کو مسخ کیا ہے اپنے قائدین کے قول قرار اور وعدوں کی مٹی پلید کی ہے وہ اس حساس مسئلہ کو کسی کاغذی تبدیلی سے بدلنے کے جس گھمنڈ میں مبتلا ہے اس کا غرور اور حماقت دونوں خاک میں مل جائینگے، عالمی برادری کو اگر کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم نظر نہیں آ رہے تو ان وعدوں ان قراردادوں اور ان اعلانات کو کیسے نظرانداز کرینگے۔