خطہ کی بدلتی صورتحال اور پاکستان کا کردار

٭۔امریکہ اور اسرائیل کے درمیان صدی کی ڈیل سازش ہے جو سرزمین فلسطین پر اسرائیلی ناجائز قبضہ کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہے ، یہ کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ۔ پوری شدت سے اسے مسترد کیا جائے ،یہ ناجائز قبضہ ہے ۔
٭۔پاکستا ن تو کبھی بھی افغانستان یابھارت سے جنگ نہیں چاہتا ۔ اقوام متحدہ اگر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے موثر کردار ادا نہیں کرے گا ، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم و انسان کشی جاری رہے گی ۔ افغانستان میں اگر مسلسل جارحانہ مداخلت کی روش برقرار رہے گی اور افغان عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوگاتو خطہ مستقل بنیادوں پر عدم استحکام کا شکار رہے گا ۔ پاکستانی حکومت اس تناظر میں اپنا سفارتی کردار ادا کرے ۔
٭۔ایران آزاد ،اسلامی ، خود مختار ملک ہے اس کے خلاف امریکی اقدامات صریحاً ناجائز ہیں ۔ مڈل ایسٹ میں تنازعات کی تازہ لہر عالمی امن کے لیے انتہائی مہلک اور خطرناک ہے ۔ عالمی ادارے اپنی پالیسی اور منظور کردہ قرار دادوں سے انحراف کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جانبداری ، مسلم دشمنی کا تعصب حالات و تعلقات میں شدت پیدا کرتاہے ۔ خطہ کو مرید تباہی سے بچانے کے لیے مڈل ایسٹ کو امن کی طرف لانے کے اقدامات کیے جائیں ۔ پاکستان ثالثی کا کردار ادا کرے ۔
٭۔خطہ میں امن و استحکام کے لیے اقوام متحدہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلائے ۔ پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے موثر سفارتی کردار بہت اہم ہے ۔امریکہ کی افغانستان کے حوالے سے غلط اور تباہ کن پالیسی سے نجات کا تقاضا ہے کہ امریکہ ناکامی تسلیم کرے اور اپنی فوجی طاقت کا خطہ سے خاتمہ کرے ۔ اب وقت آگیاہے کہ چین ، روس ، ترکی ، ایران اور خطہ کے دیگر ممالک خصوصاً مڈل ایسٹ اور سنٹرل ایشیا کے ممالک مشترکہ بنیادوں پر خطہ کو امریکی اثرات سے نجات دلانے کی حکمت عملی اختیار کریں ۔
٭۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی کشیدگی ، غلط فہمیاں سب کے لیے پریشانی اور مشکلات کا باعث ہیں ۔ ایران کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کی آمادگی مثبت اشارہ ہے ۔ اس مرحلہ پر پاکستان موثر رابطوں کے ذریعے مغربی ایجنڈے کو نیست و نابود کرنے کے لیے کردار ادا کر سکتاہے۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی دوری کاحل ضروری ہے ۔
٭۔بھارت اور اسرائیل سے مسلم ممالک کی بڑھتی دوستی اور تعلقات سے مسئلہ کشمیر،فلسطین ، عالم اسلام ا ور امت کو پہنچنے والے عمومی نقصانات سے بچانے کے لیے پاکستان موثر حکمت عملی سے کردار ادا کرے ۔
یہ امر باعث تشویش اور چشم کشا ہے کہ بھارت کو خلیجی ممالک سے بے شمار اقتصادی فوائد ہورہے ہیں جبکہ عالم اسلام سے بہتر تعلقات کی بنیاد پر خطہ میں امن ، معاشی ترقی ، تنازعات کے حل کے لیے بڑا راستہ بنایا جاسکتاہے لیکن پاکستان خلیجی ممالک کے بھارت سے بڑھتے تعلقات کے لیے کوئی سدباب نہیں کر پا رہایہ خارجہ پالیسی اور سفارتکار ی کا بڑا کمزور پہلو ہے ۔ پاکستان کا پوری دنیا سے زر مبادلہ 21 ارب ڈالر کے قریب ہے جبکہ بھارت خلیجی ممالک سے ہی 54 ارب ڈالر کازر مبادلہ حاصل کرتاہے جو عملاً سی پیک کے برابر ہے ۔ بھارت کے متحدہ عرب امارات سے تعلقات اور شراکت داری بڑھتی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ او آئی سی کے حالیہ اجلاس میں بھارت کو مدعو کیا جانا پاکستان کی ناکام خارجہ پالیسی ہے ۔ خطہ میں صورتحال بدل رہی ہے ۔ پاکستان کو اپنی خارجہ حکمت عملی کے لیے قومی اتفاق رائے اور موثر حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ۔
خطہ میں مستقبل میں پیدا ہونے والے امکانات میں پاکستان کو ہوش ، جوش ، ہنر مندی ، تدبر اور فعالیت کے ساتھ کردار ادا کرنا ہے یہی قیادت اور پالیسی سازی کے لیے چیلنج ہے ۔ (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن