گستاخوں کی گرفت کی جائے

گناہگار امتی اپنے خانگی اور جائیداد کے مسائل حل کر نہیں سکتے پندرہ صدیاں پرانے واقعات اور مسائل لے کر دست و گریبان ہوئے بیٹھے ہیں ؟ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو وراثت سے محروم رکھنے والے بھی پندرہ صدیاں پہلے آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کے حق کے لئے فکر مند ہیں ؟ فرقہ واریت پھیلانے سے ہی تو ان کے گھر چلتے ہیں۔ جس کے منہ میں جو آتا ہے بول دیتا ہے بغیر یہ سوچے کہ دین اسلام تجھ سے صرف تیرے اعمال کا حساب مانگے گا تجھے دوسروں کا ٹھیکیدار بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ ممبران رسول پر رسول کے دین کی توہین کرنے کا ٹھیکہ ان جاہلوں کو کس نے دیا ہے ؟ توہین انبیاء ہو یا گستاخ صحابہ کرام حکومت اگرسخت ایکشن لے تو یہ بد بخت خود بخود ختم ہوجائیں گے۔قانون کی بے حسی اور کاہلی کے سبب ان غلیظ افراد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ تمام انبیاء کرام پر ایمان اور ان کی تعظیم اسلام کا لازمی جزو ہے اور خلفاء راشدین اور صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور احترام مسلمان پر واجب ہے۔دین کی بات کرنی ہے تو فقط ارکان اسلام اور اعمال کی بات کی جائے تاریخی واقعات کو دین بنا کر پیش کر کے مسلمانوں کو گمراہ مت کیا جائے۔ قرآن پاک تاریخ فلسفہ یا سائنس کی کتاب نہیں ، قرآن پاک کتاب ہدایت ہے۔اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا دیا ہے کہ روز حشر تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کیا جائے گا تم سے پہلوں کے اعمال کا حساب نہیں مانگا جائے گا۔ مگر مسلمان اتنے بے خبر ہوتے جارہے ہیں کہ دوسروں کی فکر اور کھوج میں لگے رہتے ہیں یا دو کتابیں پڑھ کر نیم حکیم خطرہ ایمان بن جاتے ہیں اور اپنی قبر سے غافل پندرہ صدیاں پہلے گزری عظیم ہستیوں کے معاملات ڈسکس کرنے بیٹھ جاتے ہیں ،مشرکانہ  فتوے صادر کرنے لگتے ہیں ، توہین آمیز جملے لکھتے بولتے ہیں ، جاہلانہ گفتگو سے گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں جبکہ رب نے کسی سے ان ہستیوں کی بابت سوال نہیں کرنا۔ نبی پاک کا گھرانہ اور صحابہ کرام کے معاملات اعمال ان کے ساتھ ہیں ، امت کے معاملات اعمال امت کے ساتھ ہیں۔ایک مسلمان حد ادب سے تجاوز کر گیا تو غارت ہو جائے گا۔ محتاط رہنے میں ہی بچت ہے۔ نبی پاک صلی  اللہ وسلم کے گھرانے یا اصحاب پر سوال اٹھانا ‘‘ذات دی کوڑھ کرلی تے چھتیراں نوں جھپے ‘‘ کے مترادف ہے۔ ہماری ہستی ہی کیا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے والے ذاکر اور مولوی پہلے اپنے گھروں کے جھگڑے اور مسائل تو نبٹا لیں پھر نبی پاک کے اہل بیت کے پندرہ صدیاں پرانے مسائل بھی حل کرنے کی نیکی کمانے کی جرات کریں۔ کچھ خدا کا خوف نہیں کہ ذرا سی بے ادبی بد گمانی یا بہتان بازی سے جہنم رسید کر دئیے جایئں گے۔ واقعہ کربلا نے توحید کا سبق دیا اور الا ما شا اللہ مسلمان شرک کی راہ پر چل دیئے؟ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے وحد لا شریک کے سجدے میں سر کٹوا دیا اور امت اپنے اعمال سے شہدا کربلا کے دین محمدی کو داغدار کرنا چاہتی ہے ؟ اللہ وحد لاشریک کے بعد محمد عربی صلی اللہ وسلم آخری نبی کا مقام تعظیم اور پھر اہل بیت رسول اللہ اور خلفاء راشدین کا مقام عظیم ،ایک امتی ارکان دین کی ادائیگی اور اسلاف کی تعظیم کا مکلف ہے ، تاریخ جغرافیہ میں مرضی کے نکات نکالنا اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی ڈیوٹی کس نے سونپ دی ؟یہ کام ابلیس زیادہ ذہانت سے سر انجام دیتا چلا آرہا ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عمر فاروق رضی اللہ عثمان غنی رضی اللہ علی کرم اللہ وجہہ جیسی بلند مرتبت ہستیاں اپنے نبی پاک اور آپ کے اہل بیت پر جاں نثار کرت تھیں۔ بعد میں تاریخ نے ملحد فاسق فاجر منافق پیدا کر دئیے جو صدیوں سے امت کو اصحاب رسول اللہ کے خلاف گمراہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ایسے گستاخوں کی گرفت کے لئے سخت قانون سازی کرنی ہو گی ورنہ پاکستان میں لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لیتے رہیں گے اور آئے روز کسی نہ کسی گستاخ عورت یا مرد کا قتل ہوتا رہے گا۔ 
صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والا فاسق ، فاجر اور گمراہ ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ پاکیزہ نفوس ہیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت با برکت نصیب ہوئی ، یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جن کی آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض ِ دیدار سے منور ہوئیں ،اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت نے جِلا بخشی اور جنہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دی ، وہ اخلاص کے پیکر مجسم تھے ،وہ ایسے عاشق رسول تھے۔ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر محبت و وارفتگی کے لیے ایسے نمونے چھوڑے کہ رہتی دنیا تک یہ مشام جان کو معطر کرتی رہیں گی۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایسی شان دیکھی ہے کہ میں تم سے کسی کو ان کے مشابہ نہیں پاتا، وہ صبح اس حال میں نظر آتے تھے کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہوتے، غبار آلود ہوتے، رات انہوں نے سجدے اور قیام میں گزاری ہوتی، کبھی اپنی پیشانیوں پر جھکے ہوتے تھے، کبھی اپنے رخساروں پر، قیامت کی یاد سے ایسے بے چین نظر آتے تھے جیسے انگاروں پر کھڑے ہوں، ان کی پیشانی (کثرت ِطولِ سجود سے) ایسی سخت وخشک معلوم ہوتی تھی جیسے بکری کی ٹانگ، اللہ کا نام لیا جاتا تو ان کی آنکھیں ایسی اشک بار ہو جاتیں کہ ان کے گریبان ودامان تر ہوجاتے، اور وہ اس طرح سزا کے خوف اور ثواب کی امید میں لرزتے ہوئے نظر آتے، جیسے تیز آندھی کے وقت درخت، ان کی آنکھیں فرطِ گریہ سے سفید تھیں، ان کے پیٹ روزوں کی وجہ سے پیٹھ سے لگے ہوئے ہوتے، ان کے ہونٹ دعا سے خشک ہوتے، ان کے رنگ بے خوابی اوربیداری کی وجہ سے زرد ہوتے۔یہ وہ محبوب جماعت ہے جسے دنیا ہی میں رضائے الٰہی کا پروانہ عطا کیاگیا،قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے ایک عظیم واسطے ہیں کہ ان کے بغیر دین و شریعت نا مکمل ہے ، ان سے محبت حب نبوی کی دلیل ہے اور ان سے بغض ونفرت نبی سے بغض و عداوت کے مترادف ہے۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...