اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے وفاقی دارالحکومت کے چڑیا گھر میں جانوروں کی ہلاکت کیس میں وزیرمملکت زرتاج گل اور ملک امین اسلم کی طرف سے توہین عدالت شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرانے کیلئے مہلت کی استدعا پر سماعت ملتوی کردی۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران وزیر مملکت زرتاج گل کی طرف سے سلمان اکرم راجہ عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا جن کو شوکاز نوٹس جاری کئے ان کے جواب جمع ہو گئے۔ دوران سماعت چیئرمین سی ڈی اے کی طرف سے جواب جمع کراتے ہوئے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی اور کہا کہ عدالتی حکم کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔ چئیرمین سی ڈی اے کو بطور ممبر وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری ہوا۔ 6 جولائی 2020 کو مرغزار چڑیا گھر کا کنٹرول بورڈ سے وزارت موسمیاتی تبدیلی کو منتقل کردیا گیا۔ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے عدالتی حکم کے بعد جانوروں کو ان کی پناہ گاہوں میں منتقل کیا۔ جانوروں کی ہلاکت کے واقعے کی بورڈ اور وزارت موسمیاتی تبدیلی نے انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا، اس وقت وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کا کردار ایک ایڈوائزری حیثیت کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جانوروں کی ہلاکت افسوس ناک ہے اس سے پتہ چلتا ہے ملک کو کیسے چلایا ہے۔ آفیشلز ممبران نان آفیشلز پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں، جن کی ذمہ داری تھی وہ اپنی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جب کچھ غلط ہو گیا تو وزارت نے کہا کہ ہمارا تو کوئی تعلق ہی نہیں، اس عمل سے ہم دنیا کو کیا دکھا رہے ہیں، صرف یہ سوال ہے کہ جن کی ذمہ داری ہے وہ چھوٹے ملازمین پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں، یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ملک کو کیسے چلایا جا رہا ہے؟۔ بورڈ کی ممبرشپ لے لیتے ہیں مگر نہ اجلاس میں جاتے اور نہ ہی ذمہ داری لیتے ہیں، جن کی ذمہ داری ہے وہ کچھ غلط ہونے پر ذمہ داری قبول نہیں کرتے، جب کریڈٹ لینے کی باری آئے تو ہر کوئی کریڈٹ لینا چاہتا ہے، ایک واقعہ ہوا ہے، کسی کو تو اس کی ذمہ داری لینی چاہئے، ایک چھوٹے سے ملازم پر ذمہ داری ڈال کر اس پر پرچہ کرا دیتے ہیں، وفاقی حکومت نے ایک بورڈ بنایا ہے جس کو مکمل ذمہ داری دی گئی، عدالت کو دوران سماعت یہ بتایا گیا کہ حکومت نے ایک بورڈ بنا دیا ہے، جب کچھ غلط ہوا تو کہا کہ نوٹیفکیشن تو گزٹ میں شائع ہی نہیں ہوا تھا، عدالت کو پھر جس نوٹیفکیشن کا بتایا گیا اس میں وزیراعظم بھی شامل تھے، انہیں تو معلوم بھی نہیں ہو گا، بہت سارے جانور تو غائب بھی ہو گئے، یہ بہت شرمندگی کی بات ہے، جانوروں کا کھانا بھی چوری ہوتا رہا، ابھی تو بہت سی باتیں ہم نے فیصلے میں نہیں لکھیں، جو جانور تکلیف میں ہیں پہلے ان کی مشکلات کو دور کرنے کا بندوبست کریں، جانور چڑیا گھر کے پنجروں میں قید کرنے کے لیے نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اشرافیہ نے نیشنل پارک کو تباہ کیا۔ اس بات پر بھی معاونت کریں کہ ذمہ داروں کو کم از کم دو گھنٹے انہی جانوروں کے پنجروں میں کیوں قید نہ رکھا جائے؟۔ ابھی عدالت نے فارمل شوکاز نوٹس جاری کر کے کسی کو ذاتی حیثیت میں طلب نہیں کیا، پہلے اس بات کا تعین ہو جائے کہ کون ذمہ دار ہے؟ پھر ذاتی حیثیت میں طلبی ہو گی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی امین اسلم، وزیر مملکت موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل کی طرف سے جواب کے لیے مہلت کی استدعا کی گئی، جس پر عدالت نے کہاکہ کیا اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کے تمام ارکان نے شوکاز نوٹس کا جواب داخل کرا دیا؟۔ جن افراد نے ابھی تک جواب جمع نہیں کرائے وہ آئندہ سماعت سے قبل جمع کرا دیں، عدالت نے سماعت 25 ستمبر تک ملتوی کردی۔