شماریات جسے ہم انگریزی میں (Statistics) کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اس میں ہم دیکھیں گے کہ قومی اقتصادی ترقی میں شماریات کا کردار کیونکر ہوتا ہے؟ یاد رہے! جب تک آپکے پاس اعداد و شمار نہیں ہو گے ، آپ اپنے گھر کا بجٹ بھی نہیں بنا سکتے ، کیونکہ گھر کا ماہانہ / سالانہ بجٹ بنانے کیلئے، پہلے تو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ گھر کے افراد کتنے ہیں؟ کتنے بڑے اور کتنے چھوٹے ہیں! کتنے سکول میں پڑھتے ہیں اور کتنے کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں؟ اب ذرا دیکھتے ہیں کہ شماریات ، اقتصادیات پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے۔ جان لیجئے! سب سے پہلے آپ کے اعداد و شمار آپکی زندگی کے معیار کو طے کرتے ہیں۔ آمدن کتنی ہے؟ خرچ کتنا ہوتا؟ کس کس مد میں کیا کیا خرچ کرنا ہے۔ گویا بالفاظِ دیگر ’’شماریات‘‘ کا تعلق آپ کی ترقی کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ جڑا ہوا ہے۔ ذرا اس بات پر غور کیجئے کہ جتنا بڑا کنبہ ہو گا ، اس میں کچھ بڑے، کچھ چھوٹے بڑے افراد تو ظاہر ہے کمائی کرینگے اور چھوٹے افراد اس کمائی سے، اپنی ترقی کی راہیں تلاش کرنے میں کوشاں ہونگے۔
یاد رہے کہ انفارمیشن یا شماریات کا حصول ، جس قدر سہل اور آسان ہو گا ، اسی قدر ترقی کے زینے بھی آسانی سے طے ہونگے۔ کامیابی کے حصول کا دارو مدار، جلد اور آسان طریقے سے اعداد و شمار کے حصول پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سطح پر مناسب فیصلوں کا حصول ، ہمیشہ صحیح اعداد و شمار ہی پر منحصر ہے۔ اسی لئے 1950ء ماہ جولائی / اگست میں پاکستانی شماریاتی سسٹم کی بنیاد و اہم دفاتر پر رکھی گئی۔ تنظیم مردم شماری اور مرکزی شماریاتی دفتر، سنٹرل بورڈ آف ریونیو 1924ء سے کام کر رہا تھا، گویا پاکستان کی آزادی 1947ء سے پہلے جبکہ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے یکم جولائی 1948 ء سے کام کرنا شروع کیا ہے۔
انڈوپاک میں زرعی اعداد و شمار اکٹھا کرنے کا کام 1930ء سے شروع کیا گیا ، جبکہ ایک چھوٹا سا شماریاتی سیکشن ، امپیریل کالج آف ایگری کلچر انڈیا میں بنایا گیا۔ یہ سیکشن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف ایگری کلچر اور اینیمل ہزبینڈری (Animal Husbandry) کی سرگرمیوں کی پلاننگ پروگریس (Progress) اور تکمیل سے متعلقہ اعداد و شمار جمع کیا کرتا تھا۔ 1957-58ء تک زرعی شماریات کیلئے پاکستان میں باقاعدگی سے کوئی کام نہ کیا گیا البتہ مغربی پاکستان نے ایک چھوٹا سا شماریاتی سیل ، محکمہ زراعت میں بنایا ۔ صوبائی محکمہ شماریات بیک وقت دو صوبوں، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں اکتوبر 1957ء میں بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 1970ء میں مغربی پاکستان کی تشکیل نو کے وقت چار صوبائی محکمہ شماریات صوبائی سطح پر معرض وجود میں آئے جو کہ پنجاب ، سندھ ، شمال مغربی سرحدی صوبے جو کہ اب خیبر پختونخوا کہلاتا ہے اور بلوچستان بیوروز کے نام سے موسم کئے جاتے ہیں۔ ستمبر 1972ء میں سنٹرل شماریاتی آفس کا درجہ بڑھا کر ’’ڈویژن‘‘ بنایا گیا۔ مارچ 1978ء میں شماریاتی ڈویژن نے تنظیم زراعت شماری اور تنظیم مردم شماری کی کمانڈ بھی سنبھال لی جو اس سے پہلے بتدریج محکمہ خوراک و زراعت اور محکمہ داخلہ کے ماتحت کام کر رہے تھے۔
نیشنل رجسٹریشن 1973ء میں متعارف کر دیا گیا۔ نیشنل ڈیٹا بیس آرگنائزیشن1998ء میں قائم کیا گیا۔ دونوں محکموں کو مارچ 2000ء میں ایک دوسرے میں مدغم کر دیا گیا اور نئی تنظیم کا نام نادرا رکھا گیا۔ جسے National Data Base and Registration Authority کہتے ہیں۔
پنجاب کراپ رپورٹنگ سروسز ڈائریکٹوریٹ 1978ء میں بنائی گئی ، اسی طرز پر کراپ رپورٹنگ کا محکمہ 2004ء میں شمال مغربی سرحدی صوبہ جو اب خیبر پختونخوا کہلاتا ہے اور سندھ میں 2003ء اور بلوچستان میں 2006ء میں قائم کیا گیا۔ 72 برسوں میں شماریاتی سسٹم آف پاکستان نے زبردست ترقی کی۔ وقتاً فوقتاً اس سٹم میں سماجی، اقتصادی سروے بھی کرائے گئے ، اسکے علاوہ پاکستان ڈیموگرافک سروے، پاکستان Labour فورس سروے ، گھریلو آمدنی و اخراجات سروے ، پاکستانی قوم کے سماجی اور ’’معیارِ زندگی‘‘ کا سروے، تھوک و پرچون تجارت سروے، سمال اور گھریلو دستکاری صنعت سروے وغیرہ بھی شامل ہیں۔
نیشنل اکائونٹس آف پاکستان کے اجراء کا کام 1949ء اکنامک ایڈوائزری ونگ وزارتِ خزانہ نے شروع کیا۔ بعد میں یہ کام وفاقی ادارہ شماریات کو 1950ء میں منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت سے لیکر اب تک قومی آمدنی سے متعلق اعداد و شمار پاکستان شماریاتی ادارہ تیار کرتا ہے اور یہی اعداد و شمار سالانہ بجٹ کا حصہ بنتے ہیں۔ شماریاتی سالانہ کتاب ، ایک باقاعدہ سالانہ اشاعت ہے، جس میں بہت سے موضوعات کے بارے میں اعداد و شمار مہیا کئے جاتے ہیں۔ جس میں زراعت ، آبادی ، لیبر فورس ، قیمتیں ، تعلیم ، صحت ، اقتصادی معاونت انرجی (Energy) اور مائیننگ (Mining) ، ٹرانسپورٹ ، کمیونیکیشن اور پبلک فنانس وغیرہ شامل ہیں۔ (جاری)