اپوزیشن نے تو سرکاری بنچوں کے ہاتھوں اپنی ہمہ وقت کی تضحیک سے زچ ہو کر سینٹ میں ENOUGH IS ENOUGH کا نعرہ لگایا اور بیک زبان ہو کر اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل اور اسلام آباد دارالحکومت وقف املاک کے ترمیمی مسودہ قانون کو مسترد کر دیا جس پر حکومتی عہدیداران بشمول وزراء اور مشیران کرام لٹھ لے کر اپوزیشن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اسکے اس اقدام کو قومی مفاد کے منافی قرار دیکر اسے مطعون کیا جارہا ہے کہ اس نے متعلقہ ترمیمی بل کو مسترد کرکے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا نام نکلوانے کی راہ میں روڑے اٹکائے ہیں۔ اپوزیشن کے زچ ہونے کا معاملہ سرکاری بنچوں کے ہاتھوں صرف اسکی تضحیک کا نہیں بلکہ اس نامعلوم یا خفیہ ایجنڈے سے بھی تعلق رکھتا ہے جس کے تحت قومی مفاد کی آڑ میں ایف اے ٹی ایف کیلئے ترمیم کے متقاضی قوانین میں بعض ایسی ترامیم بھی تجویز کردی گئیں جو قانون کی شکل میں نافذالعمل ہو جائیں تو ہر پاکستانی شہری بیٹھے بٹھائے قعرمذلت میں جا گرے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن منی لانڈرنگ کے قانون میں ترمیم کے بدلے اپنے لئے این آر او چاہتی ہے جس کیلئے اسکی جانب سے نیب کے قانون میں ترامیم کی ایسی تجاویز پیش کی گئیں کہ انکی بنیاد پر نیب کے ذریعے چور ڈاکو کو پکڑنے کا تصور ہی بے معنی ہو جائے مگر اسکے برعکس اپوزیشن کی جانب سے حکومتی کمیٹی کی پیش کی گئی جن مجوزہ ترامیم کی نشاندہی کی گئی ہے وہ اس خودمختار ریاست کی عزت و آبرو پر بٹہ لگانے کے مترادف تھیں۔ اس معاملہ کو سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے اٹھایا اور نشاندہی کی کہ حکومت مجوزہ ترمیمی بل میں ایک شق یہ بھی شامل کرنا چاہتی تھی جس کے تحت ملک کے کسی بھی شہری کو بلاتحقیق اٹھا کر چار ماہ کیلئے غائب کیا جا سکتا ہے اور متعلقہ ایجنسی کی جانب سے یہ اختیار ریاست پاکستان کے نام پر استعمال کیا جانا مقصود تھا۔ یہی نشاندہی دو روز قبل سینٹ میں انسداد منی لانڈرنگ ترمیمی بل پیش ہونے کے موقع پر پیپلزپارٹی کے عہدیداروں اور سینیٹروں رضا ربانی خان اور شیری رحمان نے تشویشناک لہجے میں کی اور ایسا قانون تجویز کرنیوالے حضرت یا حضرات کے ذہن میں موجود اصل کہانی کا کھوج لگانے کا تقاضا کیا۔
ایسی مخصوص ذہنیت والے عناصر جنہیں ’’لبرلز‘‘ کا بھی ٹائٹل مل چکا ہے‘ ہمارے ہر شعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ مشرف کے دور میں ایسی ذہنیت کے حامل عناصر کی جانب سے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ایک ترمیمی شق ڈلوا دی گئی جس کے تحت امور حکومت پر اختلاف رائے کا تحریر و تقریر کے ذریعے اظہارکرنے اور شائع کرنیوالے افراد کیخلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرنے کی گنجائش نکال لی گئی۔ میں اس وقت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (دستور) کا صدر تھا چنانچہ میں نے اس پر مختلف فورمز پر صدائے احتجاج بلند کی کہ یہ آزادی ٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار رائے کو سلب کرنے کا انتہائی کرخت ہتھکنڈہ تھا۔ اس پر سوسائٹی کے دوسرے طبقات کی جانب سے بھی آواز اٹھی تو متعلقہ ترمیمی شق واپس لے لی گئی۔
ابھی ایک سنگین معاملہ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ کے سبکدوش ہونیوالے منیجنگ ڈائریکٹر رائے ناصر منظور نے اٹھایا ہے جو ’’لبرلز‘‘ کے ایجنڈے پر قومی غوروفکر اور ٹھوس تحقیق کا متقاضی ہے۔ انہوں نے اوکسفورڈ اور کیمبرج جیسے 31 غیرملکی طباعتی اداروں کی مرتب کردہ ایک سو سے زائد کتب اپنی گرفت میں لیں جو ہمارے ’’اعلیٰ پائے‘‘ کے نجی تعلیمی اداروں کے نصاب میں بطور درسی کتب شامل ہیں جن میں حضرت نبی ٔ آخرالزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کی خدا تعالیٰ کی جانب سے گواہی دینے والی آیات قرآنی کو یکسر نکال دیا گیا یا ان میں ردوبدل کردیا گیا۔ یہ جرم سیدھا سیدھا توہین ربِ کائنات اور توہین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمرے میں آتا ہے اور مسلمانوں کے ایمان اور عقیدہ پر حملہ آور ہونے کے مترادف ہے۔ اسی طرح نشان زدہ کتب میں انبیاء و صحابہ کرام کی شان میں گستاخانہ الفاظ شائع کئے گئے ہیں اور نعوذاباللہ اذان کی آواز کو آلودگی پھیلانے والی آواز سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شعائر اسلامی کو ایسے نجس اور گھٹیا انداز میں تحقیر کا نشانہ بنانے کا اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کا ایجنڈا تو کوئی ڈھکا چھپا نہیں مگر ہمیں تشویش تو ملک میں موجود ان عناصر کے حوالے سے ہے جو الحادی قوتوں کے اس ایجنڈے کو یہاں درسی کتب کے ذریعے فروغ دینے کی مذموم کوششوں میں مگن ہیں۔ کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایسی درسی کتب کا مطالعہ کرنیوالے طلبہ و طالبات کے ذہنوں میں دین اسلام اور شعائر اسلامی کا کیا خاکہ بنتا اور محفوظ ہوتا ہوگا۔ رائے ناصر منظور نے اسی تناظر میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل متعلقہ کتب پکڑیں اور ان میں شعائر اسلامی کے منافی مواد نکال کر ازسرنو مرتب کرنے کی ہدایت کی جو الحادی ایجنڈے کے اسیر عناصر کو گوارا نہیں ہوا اور انہوں نے نشان زدہ مواد متعلقہ درسی کتب سے نکالنے کے بجائے اپنے اثرورسوخ سے اس حکومت کو رائے ناصر منظور کو انکے عہدے سے جھٹ پٹ فارغ کرنے پر مجبور کر دیا جس کے وزیراعظم ملک میں یکساں قومی نصاب کیلئے متحرک ہیں اور وطن عزیز کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کیلئے فکرمند رہتے ہیں۔ اگر نجی تعلیمی اداروں کے نصاب میں یہ کتب بدستور شامل رہتی ہیں تو اس سے شعائر اسلامی میں غتربود کا بیڑہ اٹھانے والی فارن فنڈڈ این جی اوز کو کھل کھیلنے کا مزید نادر موقع ملے گا اس لئے رائے ناصر منظور کی جانب سے اپنی نوکری کو دائو پر لگا کر اٹھائے گئے اس سنگین معاملہ پر قومی حمیت کے تقاضوں کے تحت قومی تشویش کی فضا ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسے بدطینت عناصر کو حکومتوں کی سرپرستی میں یا انکی معنی خیز خاموشی کے باعث قومی حمیت و خوداری کو بٹہ لگانے والے اپنے ایجنڈے کو پھیلانے اور بطور قانون رائج کرانے کا موقع ملتا ہے تو پھر آج کے دورِ ناپُرساں میںاس تاسف ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ…ع
حمیت نام تھا جس کا‘ گئی تیمور کے گھر سے
٭…٭…٭