حضرت سیدہ فاطمۃ الزھراؓ پیغمبر آخر الزمان ﷺ کے جگر کا ٹکڑا اور بالکل رسولِ خداﷺ کی تصویر تھیں۔ پاکیزہ خصائل، پاک نفسی اور عالی ظرفی، عبادات میں انہماک، آخرت طلبی، اصلاحِ نفس کی فکر، دنیا سے بے رغبتی، خودداری، کردار کی بلندی زہرۃ بتولؓ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ ’’مستدرک علی الصحیحین‘‘ میں امام حاکم نیشاپوری نقل کرتے ہیں، رسول اﷲ ﷺ نے اپنے وقتِ آخر میں حضرت فاطمہؓ سے فرمایا: بیٹی! کیا تم خوش نہیں کہ تم اُمتِ اسلام اور تمام عالم کی عورتوں کی سردار ہو۔ حضرت فاطمہؓ کا طرزِ عمل، سیرت ایک ایسا اخلاقی دبستان ہے جو عصرِ حاضر کے طبقہء نسواں کیلئے ایک روشن مثال ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ’’کلیات اقبال‘‘ میں ہدیہ عقیدت جناب سیدہ فاطمۃ الزھراؓ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہوئے دنیا کی خواتین کو یہ باور کروایا کہ صنفِ نسواں کیلئے جس حیثیت سے بھی نمونہء عمل کو تلاش کیا جائے تو فاطمہؓ مشعلِ تعلیم لیے ہوئے نظر آئیں گی۔ بیٹی، زوجہ، ماں کیلئے کامل نمونہ تقلید ہیں۔ حضرت فاطمہؓ کے بچپن کا دورِ اسلام کا ابتدائی دور تھا۔ یہ وقت بڑا کٹھن اور دشوار ترین تھا کیونکہ دشمنانِ اسلام نے جبروبربریت کی انتہا کر دی تھی۔ ذہنی و جسمانی تشدد کے بعد جب کفار کو مطلوبہ نتائج میسر نہ آئے تو انہوں نے بنی ہاشم کو شعبِ ابی طالب میں تقریباً تین سال تک سخت کرفیو میں رکھا۔ فوڈ ٹرانسپورٹیشن محال تھی حتی کہ اصحابِ رسولﷺ نے پتے کھا کر گزارا کیا۔ لیکن جناب سیدہ فاطمہؓ نے بچپنے میں بھی فہم و فراست کے ساتھ عظیم والد نبی کریم ﷺ کے ساتھ بھوک پیاس کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بچیوں کی طرح کھانے پینے، کھلونوں کسی چیز کی ڈیمانڈ نہیں کی۔ آپؓ اپنے والد کیلئے ڈھارس کا منبع تھیں، صحیح بخاری کی حدیث 3854ہے جسمیں بیان ہے کہ جناب سیدہؓ نے بہادری اور شجاعت سے کفار کا ڈٹ کر سامنا کیا۔ ’’ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اسکے ساتھی بھی بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا تم میں کوئی شخص قبیلے کی اونٹنی جو ذبح ہوئی ہے اسکی اوجڑی اٹھا لائے اور جب محمدﷺ مسجد میں جائیں تو انکی پیٹھ پر رکھ دے… یہ سن کر ان میں سے بدبخت آدمی اٹھا اور اوجڑی آپؐ کے کندھوں کے درمیان رکھ دی۔ عبداﷲ بن مسعودؓ کہتے ہیں میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکا۔ کاش مجھے روکنے کی طاقت ہوتی… رسول اﷲ ﷺ سجدہ میں تھے بوجھ کی وجہ سے اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے یہاں تک کہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپﷺ کی پیٹھ سے اتار پھینکا‘‘۔ یہ فاطمہؓ کی عفت و پاکیزگی کا رعب تھا کہ کفار کو کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ 21ویں صدی کی مسلم بیٹیوں سے گزارش ہے کہ وہ بھی والدین سے حسنِ سلوک کیلئے فاطمہؓ کی سیرت کو اپنائیں، ٹی وی، ٹاک شوز، مارننگ شوز، ٹک ٹاک سٹارز جس طرز کے ملبوسات اور جیولری پہنتے ہیں، خدارا ان اشیاء کی ضد مت کیجئے، جتنی چادر ہو اتنے پاؤں پھیلائے جائیں۔ غریب والد کے بڑھاپے میں ہمت و حوصلہ بن کر انہیں سہارا فراہم کیجئے۔ آپ ملک و قوم کی بیٹیاں ہیں، تعلیم و تہذیب اور کردار کی پختگی کے ذریعے سے سیدہ فاطمہؓ جیسا فہم و تدبر اور اعتماد زندگی میں لائیں۔ نبی کریمﷺ نے حضرت فاطمہؓ کا نکاح خیبر شکن، حیدرِ کرار حضرت علیؓ کے ساتھ کر دیا جب وہ مالی لحاظ سے اتنی سڑانگ پوزیشن میں نہیں تھے حتیٰ کہ گھر بھی نہیں تھا لیکن حضرت فاطمہؓ نے ساری زندگی سادگی کے ساتھ بغیر کسی گلہ، شکوہ و شکایت کے نامدار شوہر کی خدمت میں صرف کر دی۔ گھریلو امور خود ہی انجام دیتیں، گھر کی صفائی کرتیں، حضرت علیؓ کی قلیل آمدن میں بھی ہمیشہ حضرت علیؓ کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ ہی پیش آئیں۔ ابوداؤد کی حدیث میں تذکرہ ملتا ہے کہ چکی پیسنے سے ہاتھوں میں چھالے بن گئے تھے اور مشکیزہ میں پانی بھرنے سے کندھوں پر نشان پڑ گئے تھے۔ یہی اسوئہ اور صبر اگر اس دور کی ظلمت میں گھری ہوئی خواتین اپنائیں تو یقین جانیے کہ 100 عائلی جھگڑوں کا تصفیہ ہو جائے، عدالتوں میں طلاق کی شرح میں واضح کمی نظر آئیگی۔ صبر ہی وہ پیمانہ ہے جس سے ہم بہتر مستقبل اور رشتوں کی پائیداری کو ماپ سکتے ہیں۔ مگر تف! آجکل کی خواتین نے تعیشات کی غلامی کو منتخب کر لیا ہے۔ شوہر کی قلیل آمدن میں بھی شکر گزاری کو محال سمجھا جارہا ہے۔ جب برانڈڈ خواہشات کی تکمیل نہیں ہوتی تو پھر آئے روز جھگڑے طلاق پر منتج ہوتے ہیں۔ کاش کائنات کے سب سے افضل گھرانہ سے کچھ سبق سیکھا جائے! بحیثیت والدہ جناب سیدہ فاطمہؓ نے قرآن کے سایہ میں بچوں کی ایسی پرورش کی کہ انہوں نے اﷲ کے دین کی سربلندی کیلئے باطل احکامات کیخلاف اپنا تن من سب کچھ قربان کر دیا یہاں تک کہ حضرت حسینؓ‘ اُنکے بھائیوں‘ بیٹوں‘ بھتیجوں‘ بھانجوں دیگر افراد خانہ اور ساتھیوںنے کربلا میں وعدے نبھادئیے، سجدہ قضا نہ ہونے دیا۔ آجکل مائیں سوشل میڈیا کی نیرنگیوں میں کہیں کھو گئی ہیں اپنے بچوں کو الیکٹرانک گیجڈز کے سپرد کر دیا ہے، معلوم نہیں کہ بچہ کیا دیکھ رہا ہے اور ا سکی ذہن سازی کس طرح ہو رہی ہے۔ عصرِ حاضر میں فیمنزم، نام نہاد تنظیموں کی پشت پناہی سے عورت کی آزادی نے وہ بھیانک صورت اختیار کر لی ہے کہ جس سے چاردیواری کا تقدس پامال ہوگیا ہے۔ معاشرہ کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچانے کیلئے ہمیں اپنے اسلاف کی روش کو اپنانا ہوگا۔