تجزیہ: محمد اکرم چوہدری
ملک میں آبادی کے مطابق پلاننگ نہ ہونے سے غریب اور متوسط طبقے کو مہنگائی کے ساتھ ساتھ گراں فروشی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مہنگائی کی وجوہات میں بڑی وجہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پلاننگ نہ کیا جانا ہے۔ اس کی واضح مثال ہے کہ اس سال گندم کی بمپر کراپ کا نعرہ لگایا گیا لیکن پھر پاسکو اور صوبائی محکمہ خوراک نے حکومت کو آگاہ کیا کہ اس سال ملک میں جتنی گندم پیدا ہوئی ہے یہ صرف ایک سال کی ضرورت کے مطابق ہے کیونکہ ملک کی آبادی 20کروڑ 76 لاکھ 80 ہزار تک پہنچ چکی ہے اس لئے ملک میں گندم کے سٹرٹیجک سٹاک رکھنے کے لئے گندم موجود نہیں اس کے لئے گندم امپورٹ کی جائے۔ جس پر حکومت نے 30لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کی منظوری دی۔ پاکستان میں زرعی سیکٹر کو قدرت سے منسلک کیا جاتا ہے اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں ایسا کیوں نہیں ہوتا ہے۔ وجہ صاف ہے کہ پاکستان میں آبادی کے مطابق پلاننگ نہیں کی جاتی جبکہ بھارت میں آبادی کے مطابق پلاننگ کی جاتی ہے۔ ملک میں کھانے پینے کی اشیا کی فراہمی اور قیمتیں مقرر کرنے والے سرکاری محکموں کے حکام کے مطابق شہروں کو آبادی کی ضرورت کے مطابق اشیاء خورونوش کی سپلائی نہیں کی جاتی ہے سبزیوں اور پھلوں کی مقامی پیداوار کے وقت سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں کم ہوتی ہیں تا ہم موسم گزرنے کے بعد جب دیگر صوبوں سے آتی ہیں تو وہ مہنگی ہو جاتی ہیں اس سے زیادہ ہماری پلاننگ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لا ہور کے بیشتر علاقوں میں مارکیٹ کمیٹی کے سبزیوں اور پھلوں کے نرخ نامے پر کہیں بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ دکاندار کھلے عام سبزیاں اور پھل مقررہ قیمتوں سے زائد پر فروخت کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے مہنگائی اور گراں فروشی پر قابو پانے کے لئے رمضان میں اور بعد میں سستے ماڈل بازاروں کا سلسلہ شروع کیا لیکن اس میں بھی آبادی کے حجم کو مدنظر نہیں رکھا گیا جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ لاہور کی آبادی2017 کی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ 11 لاکھ افراد سے زائد ہے۔ اس کے مطابق اگر پلاننگ کی جاتی تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے تھے۔ میری وزیر اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ آبادی کی غذائی ضروریات کے مطابق پلاننگ کو یقینی بنائیں۔ اس کے تحت جب آبادی کے تناسب سے اشیاء خورونوش کی سپلائی ہو گی تو عوام کسی حد تک مہنگائی سے بچیں گے۔ اس کے علاوہ قیمتوں کی مانیٹرنگ کا موثر نظام ہونا چاہئے۔ گزشتہ دنوں سے گھی ملیں گھی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کر رہیں تھیں کہ عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمتیں بڑھ گئیں ہیں یہاں تک کہ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نے بھی بھی گھی کی فی کلوقیمت میں90 روپے کا اضافہ کر دیا جس سے170 روپے والے فی کلو گھی کی قیمت بڑھ کر 260 روپے ہو گئی۔ جبکہ مختلف برانڈز کے گھی اور آئل کی تھوک سطح پر قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے درجہ اول کے پانچ لیٹر آئل کی پیٹی کی قیمت میں 110روپے اضافہ کر دیا گیا جس سے اس کی قیمت1620سے بڑھ کر 1730روپے ہو گئی۔ مقامی کمپنی کے درجہ اول کے پانچ لیٹر آئل کی پیٹی کی قیمت 50روپے اضافے سے1650روپے ہو گئی۔ درجہ دوم کے آئل کی 12لیٹر کی پیٹی کی قیمت52روپے اضافے سے3650روپے سے بڑھ کر3708روپے جبکہ اسی کمپنی کے12کلو گھی کی پیٹی کی قیمت186روپے اضافے سے3450روپے سے3636روپے تک پہنچ گئی۔ پھر عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمتیں کم ہوئیں جس پر وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے نے بھی مینوفیکچررز سے کہا کہ اب وہ گھی اور کوکنگ آئل کہ قیمتوں میں کمی کریں لیکن ابھی تک انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ مجھے 26اگست کا نوائے وقت اخبار پڑھ کر شدید حیرت ہوئی جس میں خبر تھی کہ برانڈڈ گھی کی قیمت میں مزید 16 روپے فی کلو اور کوکنگ آئل کی قیمت میں 18 روپے فی کلومزید اضافہ ہو گیا ہے۔ میری وزیر اعظم عمران خان سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ ملک میں روغنی اجناس کی پیداوار بڑھانے کے لئے موثر اقدام کریں تاکہ ہمیں آئل امپورٹ نہ کرنا یا بہت کم امپورٹ کرنا پڑے۔ عوام کو تجارتی خسارہ کم ہونے کرنٹ اکاونٹ خسارہ ختم ہونے سے کوئی غرض نہیں۔ لیکن اگر مہنگائی کم ہوئی اور کھانے پینے کی اشیا کی گراں فروشی ختم ہوئی تو اس کا نتیجہ آئندہ عام انتخابات میں دیکھ لیں گے۔ اپوزیشن بھی اس وقت صرف مہنگائی پر فوکس کر رہی ہے اور مہنگائی کا واویلا مچا رہی ہے اپنے دور کی قیمتیں بتا کر عوام میں بدگمانی پھیلا رہی ہے۔ حالانکہ اپوزیشن کے اپنے دور میں مہنگائی نہیں رکی تھی اور گراں فروشی بھی کھلے عام جاری تھی۔