تصویر کے دونوں رُخ

Aug 28, 2021

بہت دور کی بات نہیں ہے کچھ ہی برس قبل تک تعلیم وتربیت کے معیار ہی مختلف تھے۔محض چند ہی برسوں میں اتنی تیزی سے ہماری روایات بدل کر رہ گئیں کہ سب کچھ قصہ پارینہ بنتا ہوا نظرآرہا ہے۔ یہاں اصل میں دونسلوں کا تیزی سے تصادم ہواہے۔ قدیم اور جدید آپس میں ملے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے جیسے دو مخالف سمت سے آتی ٹرینیں ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں۔ ہرآنے والا دور پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ خوبیاں لے کر آتا ہے لیکن نجانے کیوں موجودہ نسل اور انکے کارنامے ملاحظہ فرمائیں تو یہ معاملہ اْلٹ ہی نظرآتا ہے۔ اب نئی نسل سے مْراد تو وہی نسل ہے جسے ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں، سڑکوں اور پارکوں پرجگہ جگہ سوشل میڈیا کیلئے رقص اور اداکاری کرتی ہوئی اس نسل کا مستقبل سمجھ سے باہر ہے۔ سوشل میڈیا پر اْلٹی سیدھی حرکتیں کرنے والی یہ نسل خود کو کسی ہیرویاہیروئن سے کم نہیں سمجھتی۔ کئی دن سے مینار پاکستان والا واقعہ پورے میڈیا اور عوام کا موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ خود لوگوں کو مینار پاکستان آنے کی دعوت دی اور جب خود پہنچی تو ایسی بے ہودہ حرکات کیں جن کی اجازت نہ توہمارا مذہب دیتا ہے اور نہ ہی معاشرہ، عورت کو آج بھی ہمارے معاشرہ میں شرم وحیا کا پیکر سمجھا جاتا ہے اسی طرح گھر میں اْسکی تربیت کی جاتی تھی کہ زیادہ اونچا نہ بولو، زیادہ مت سو، بڑوں کے باادب رہو اور ایسی بہت سی عادات جو اب معدوم ہی ہوچکی ہیں۔ خیر جب بھی کسی نے اپنی حدود کو کراس کرنے کی کوشش کی وہ اپنے انجام تک پہنچا۔وہی کچھ اس خاتون کے ساتھ ہوا۔ سج دھج کر لوگوں کو دعوت نظارہ اور ایک غیر مرد کے ساتھ ویڈیو بناتی اس لڑکی کا معاشرہ میں کیا مقام تھا۔ اس کا اندازہ اْسے شاید خود بھی ہوچکا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا ایپس پر مکمل پابندی اس وقت نہایت ضروری ہے۔ صرف ایک نہیںبلکہ تین تین ایپس موجود ہیں لہذا تینوں پر پابندی کا اطلاق ہونا چاہئے۔ ایک بحث جو سب سے زیادہ چل رہی ہے کہ ایسے خاص موقع پر اْس خاتون کو ایسی جگہ پر جانا نہیں چاہئے تھا۔ چلیں مان لیں کہ نہیں جانا چاہئے کہ ایسے بے ہودہ، غیر تربیت یافتہ مردوں کے درمیان کسی بھی عورت کا چلے جانا اس معاشرہ میں عین گناہ ہے۔ لیکن کیا اس واقعہ کے بعد ہم سارا ملبہ اْس عورت پر ڈال کر کیا بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ انہی دنوں میں ایک کم عمر عورت کو قبر سے نکال کر بے حرمتی کے بعد لاش کو کھیتوں میں پھینک دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کفن میں بھی عورت بے حیائی کا باعث تھی۔وہاں پہ اْس کا کیا قصور تھا؟، پھرایک اور حادثہ ہوا ماں اور بیٹی کو رکشہ میں ایک ویران جگہ لے جاکر اْن کی عزت کو تار تارکردیا گیا۔ یہاں پر قصور کس کا تھا۔ کیا ایک بیٹی اپنی ماں کے ساتھ باہر جانے کا حق بھی نہیں رکھتی اور وہ اْسکے ساتھ بھی محفوظ نہیں ہے؟ مجھے یہ سب جواب اس معاشرہ کے مردوں سے چاہئیں جو مینار پاکستان واقعہ کے مردوں کو زیادہ موردالزام ٹھہرانا نہیں چاہتے۔ اگرچہ ایسے مردوں کی تعداد بھی کافی ہے جو اس کی مذمت کررہے ہیں۔ ہم خود کسی کام سے چودہ اگست کو شہرمیںنکلے تو عجب طوفان بدتمیزی برپا تھا۔ ہر لڑکے کے ہاتھ میں باجا تھا۔ ہر طرف شور برپا تھا بلکہ بدتمیزی کے ساتھ بے ہودگی بھی تھی۔ یہ جشن منانے کا کون سا طریقہ ہے اور پھر اس بار محرم کا ہی کچھ خیال کرلیا ہوتا۔ یہ جشن منانے والا سارا طبقہ وہ ہے جس کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے ناموں سے زیادہ کچھ علم نہیں ہوگا۔ پاکستان حاصل کیسے کیا گیا کس کس نے کیا کیا قربانیاں دیں اس سے نہ انہیں غرض ہے نہ واسطہ، بس بندر کے ہاتھ میں ماچس آگئی ہے۔ یہاںمجھے دوباتوں پر خاص طور پر گلا بھی ہے اور دْکھ بھی کہ سوشل میڈیا پر نہ صرف ہماری بہنیں بیٹیاں ٹھمکے لگاتی نظر آتی ہیں بلکہ ہماری مائیں بھی کسی طور پیچھے نہیں رہیں۔50 سے60سالہ عمر کی عورتوں کے رقص اور نازواندازنظر کو شرمندہ کرتے ہیں، دوسرا شکوہ الیکٹرک میڈیا سے بھی ہے جس نے ہمیشہ زمین کی گردکو آسمان پر پہنچایا، افغانستان جیسا اہم ترین مسئلہ چل رہا ہے، Covidکی تباہ کاریاں ابھی ہمارے ساتھ جڑی ہوئی ہیں لیکن اہم ترین مسائل کو چھوڑ کر سوشل میڈیا کے نام نہاد بے کار طبقے کو ہیرو بنا کر ہر چینل پر دن رات پیش کرکر ان کی اہمیت کو دوچند کردیا جاتا ہے۔ جس چینل پر دیکھو یہی خبریں چل رہی ہیں۔آخران لوگوں کا معیار اور وقار ہی کیا ہے؟ ٹھیک ہے جو ہوا غلط تر ہوا منظر عام پرآیا تو وزیراعظم نے بھی سخت ایکشن لیا۔اب آتے ہیں تصویر کے دوسرے رخ کی طرف کہ جن درندوں نے ایسا گھنائونا فعل سرانجام دیا وہ کسی بھی طرح معافی کے مستحق ہرگز نہیں ہیں۔ میں نے تصویر کے اس دوسرے رْخ پر زیادہ تفصیل سے روشنی اسلئے نہیں ڈالی کہ ان پر تو بحث کی ضرورت ہی نہیں۔ غلط تربیت نے ان کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔ بقول وزیراعظم صاحب کہ ان میں کچھ کو عمر قید ہوسکتی ہے اور کچھ کو سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔دوسرے واقعہ میں رکشہ ڈرائیورز اور ساتھی کی سزا بھی سزائے موت متوقع ہے۔ اس طبقے کیلئے صرف یہی کہنا چاہوں گی کہ ان سزائوں میں نفاذ کیلئے اب کی بار زیادہ دیر نہیں ہونی چاہئے اور آئندہ کیلئے ان سزائوں کا مستقل نفاذ انتہائی ضروری ہے۔ دوسرا کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔

مزیدخبریں