بیس اگست 2021 کو پاک فضائیہ کے پائلٹ آفیسر راشد منہاس، نشان حیدر کی 50 ویں برسی منائی گئی۔ اس یادگار موقع پر پاک فضایہ نے خصوصی ڈاکیومینٹری تیار کی- کئی دہائیاں پہلے، پی ٹی وی کے معروف ڈائریکٹر شہزاد خلیل نے راشد منہاس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک تاریخی ڈرامہ تیار کیا تھا راشد منہاس نے 1971 میں 20 سال کی عمر میں شہادت قبول کی تھی۔ ان کی زندگی اور بہادری کے کارنامے کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں،لیکن راقم کی کچھ معلومات پیش خدمت ہیں۔ راشد منہاس کے ساتھ میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میں پی اے ایف اکیڈمی ، رسالپور کے ابتدائی تربیتی ونگ آئی ٹی ڈبلیو (لوئر ٹوپا میں فرسٹ ٹرم فلائٹ کیڈٹ تھا- راشد منہاس اس وقت رسالپور میں بطور فائنل ٹرم کیڈٹ زیر تربیت تھے- ایک ویک اینڈ پہ راشد منہاس اور ان کے کچھ ساتھیوں نے لوئر ٹوپا کا دورہ کیابہت سے سینئرز، جو ابتدائی ٹریننگ مرحلے کے دوران لوئر ٹوپا سے گزرتھے،اکثر لوئر ٹوپا کا دورہ کرتے کیونکہ یہ ایک پر فضا مقام تھا جبکہ ان میں سے بہت سے لوگ آئی ٹی ڈبلیو میں گزارے گئے برس کی یادوں کو تازہ کرنا چاہتے تھے۔ بہت سے سینئرز آتے اورجونیر کیڈٹس پر رعب جماتے لیکن راشد منہاس ایسے نہیں تھے۔ وہ شائستہ ، نرم مزاج اور خوابیدہ آنکھوں والے تھے۔
اگلی بار ہم نے راشد منہاس کے بارے میں سنا، جب ہم پی اے ایف اکیڈمی رسالپور میں تیسری ٹرم میں تھے، ان کی عظیم قربانی اور انہیں بہادری کے اعلیٰ ترین اعزاز نشان حیدر سے نوازے جانے کا اعلان ہم نے ٹی وی پہ سنا-ہمارے سینے فخر سے پھول گئے۔ وہ ہنگامہ خیز دن تھے اور 1971 کی پاک بھارت جنگ سر پہ منڈلا رہی تھی۔ مشرقی پاکستان میں حالات ٹھیک نہیں تھے۔ ان تاریک لمحات میں، راشد منہاس کی جراء ت مندانہ قربانی نے ہمارے حوصلے بلند کیے-راشد منہاس سولو فلائٹ پہ پرواز کے لیے رنویکی جانب بڑھے تو بنگالی فلائٹ انسٹرکٹرفلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن نے راشد منہاس کے ٹرینر طیارے کو اغوا کرنے کی کوشش کی، بقیہ تاریخ کا حصہ ہے-
فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن پی اے ایف پبلک سکول سرگودھا میں ہمارے سینئر تھے ۔حادثے کے وقت وہ جیٹ کنورڑن سکول میں فلائٹ انسٹرکٹر تھے لیکن 25 مارچ 1971 کو بنگالیوں کی آزادی کا اعلان کرنے کے بعد انہیں دوسرے بنگالی افسران کے ساتھ گراؤنڈ کر دیا گیا تھا۔ دو بیٹیاں ماہین اور توہین اور بیگم ملی کے ساتھ وہ پی ایف بیس مسرور میں رہایش پذیر تھے- 1971 کی جنگ کے پیش خیمے میں، فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع نے اپنے ہائی جیکنگ مشن کا منصوبہ بنایا اور راشد منہاس کو منتخب کیا، جو ایک مہذب اور شائستہ افسر تھے۔جب راشد منہاس نے ٹیک آف کے لیے ٹیکسی شروع کی تو فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع نے ایک اسٹریٹجک مقام پر، راشد کو روکا اور طیارے میں سوار ہوئے اور راشد منہاس کو کلوروفارم کا استعمال کرتے ہوئے بیہوش کیا اور طیارے کو بھارت کی طرف موڑ دیا۔ راشد منہاس کو بھارتی سرحد سے تقریبا 35 میل دور ہوش آیا۔ انہوں نے طیارے کے ریڈیو پہ اعلان کیا کہ انہیں ہائی جیک کیا جا رہا ہے پھر ہائی جیکر سے کنٹرول چھیننے کی کوشش کی۔ زیادہ تجربہ کار فلائٹ انسٹرکٹر کے مقابلے میں راشد منہاس ناکام ہوئے۔ ناتجربہ کار طالب علم پائلٹ کے سامنے ایک ہی راستہ تھا ، انہوں نے اپنے پورے جسم کا وزن کنٹرول سٹک پہ ڈال دیا ،طیارے کو زمین سے ٹکرا کر بھارتی جنگی قیدی بننے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی-پائلٹ آفیسر راشد منہاس کی یاد میں کامرہ کے ہوائی اڈے کا نام پی اے ایف بیس منہاس رکھا گیا۔ کراچی میں ایک اہم سڑک ، راشد منہاس روڈ کے نام سے منسوب ہے۔ دو روپے کا ڈاک کا ٹکٹ جس پر ان کی تصویر تھی پاکستان پوسٹ نے دسمبر 2003 میں جاری کیا تھا۔ فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن کو بھی پی اے ایف بیس مسرور میں اسلامی روایات کے مطابق دفن کیا گیا۔ بنگلہ دیش نے بعد از مرگ انہیں بیر شریستھو سے نوازا ، جو بہادری کے لیے اس کا سب سے بڑا تمغہ ہے۔ بنگلہ دیش ایئر فورس کا ایئر بیس جیسور ان کے نام سے منسوب ہے۔ بنگلہ دیش فضائیہ نے پرواز کی تربیت میں بہترین کارکردگی پر ان کے نام سے ایک ٹرافی بھی منسوب کی۔ فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن کی زندگی پر مبنی ایک ڈاکوڈراما تیار کیا گیا جس کا نام اوگنی بولاکا ہے جس میں بنگلہ دیشی فلمی اداکار ریاض نے مطیع کا کردار ادا کیا ہے اور ٹیلی ویڑن اداکارہ ترین نے ان کی بیوی ملی کا کردار ادا کیا ہے۔ ایک بنگالی فلم بھی بنی جس کا نام اوسٹسٹ امر دیش ہے جو کہ فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن کی زندگی پر مبنی ہے-
جب میں پی اے ایف کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا ، مجھے اطلاع ملی کہ فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن کی بیٹی، جو 1971 میں چھوٹی تھیں، نے اپنے والد کی قبر پر جانے کی اجازت مانگی۔ میں نے اس وقت کے ایئر چیف پر زور دیا کہ وہ اسے خیر سگالی کے طور پر اجازت دیں۔ مطیع الرحمن کی قبر کی تزئین و آرائش کی گئی اور ان کی بیٹی کو فاتحہ خوانی کی اجازت دی گئی۔فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمٰن کیجسد خاکی کو بالآخر 24 جون 2006 کو بنگلہ دیش واپس کردیا گیا۔ انہیں میرپور ، ڈھاکہ کے شہید دانشوروں کے قبرستان میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔ ہائی جیک کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے مطیع الرحمن نے ایک اندازہ غلط لگایا تھا ، راشد منہاس کا انتخاب۔ انہوں نے سوچا کہ وہ دبلے پتلے اور نرم مزاج طالب علم پر با آسانی قابو پا سکیں گے،لیکن مطیع کو راشد منہاس کے آہنی اعصاب اور حب الوطنی کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے شکست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور پاکستان کے وقار کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کرنے کو ترجیح دی۔میں نے ذاتی طور پہ پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید، نشان حیدر کے کارنامے سے متاثر ہو کر ملی نغمہ ترتیب دیا:
"شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوۃ ہے"
پی اے ایف کیڈیٹس کی نسلوں نے پریڈ کرتے ہوئے یہ گیت اس عزم کے ساتھ گایا کہ جب بھی موقع حاصل ہو، وہ مادر وطن کے دفاع کی خاطر اپنی جانوں کی عظیم قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے۔ راشد منہاس کاعظیم کارنامہ وطن عزیز کے محسنوں کی فہرست میں سنہرے حروف سے رقم ہے۔
راشد منہاس، نشان حیدر … شہادت کی پچاسویں برسی
Aug 28, 2021