ظلمتِ شب سے اندازئہ انجام نہ کر

جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو فوراً ا±س کا نام تجویز کیا جاتا ہے تاکہ معاشرے میں ا±س کی پہچان ہوسکے۔ ہمارے ملک کو معرض وجود میں آئے 75 سال گذر چکے ہیں مگر آج تک اس کی قومی زبان کو نافذ نہیں کیا جاسکا۔دنیا کے ہر ملک کی اپنی سرکاری اور قومی زبان ا±س ملک کی شناخت ہے مگر بے شرمی اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک قائداعظم کے فرمان اور 73ئ کے آئین کے مطابق قومی زبان ا±ردو کو ملک میں نافذ نہیں کرسکے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ قومی زبان کی اہمیت و افادیت سے ہی ناآشنا ہے انہیں علم ہی نہیں کہ قومی زبان ایک ایسی قوت ہے جس میں کسی بھی ملک کی وحدت اور سا لمیت کا راز پوشیدہ ہوتا ہے بابائے ا±ردو مولوی عبدالحق نے بالکل درست فرمایا تھا کہ :”قومی زبان کی اہمیت اور قوت و اثر کو بہت کم لوگوں نے سمجھا ہے۔ اس کا ہر لفظ، ہر جملہ، ہر محاورہ اور روزمرہ اس کی ہر ہر ترکیب، ہماری تہذیب، ہمارے آداب اور ہماری معاشرت کی جڑوں اور ریشوں تک پہنچی ہوئی ہے اور اس کے ایک ایک لفظ کے پیچھے ہماری تاریخ و تہذیب کا ایک بڑا سلسلہ ہے یہ ہمارے اسلاف کی صد ہا سال کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس زبان نے جسے ہماری قومی زبان ہونے کا فخر حاصل ہے ہر دور میں زمانے کا ساتھ دیا ہے اورادب و معاشرت، سیاست اور علم و فن کی ضروریات کو کماحقہ پورا کیا اور کبھی اس کی طرف سے کوتاہی نہیں ہوئی۔“ (خطباتِ عبدالحق، مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی، انجمن ترقی ا±ردو پاکستان 1964ئ، ص 421)قومی زبان کی اہمیت و افادیت اور قوت و اثر کو بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح بھی خوب جانتے تھے اسی لئے انہوں نے واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ :
”میں آپ کو صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان ا±ردو ہوگی اور کوئی دوسری زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو غلط راستے پر ڈالے وہ درحقیقت پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم نہ تو مضبوط بنیادوں پر متحد و یکجا رہ سکتی ہے اور نہ (بہ حیثیت قوم) اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے۔ پس جہاں تک سرکاری زبان کا تعلق ہے پاکستان کی زبان ا±ردو ہوگی۔ “ (ڈھاکہ میں عوام سے خطاب، 21مارچ 1948ئ)
بانی پاکستان کے اس فرمان کے باوجود بھی آج 75سال تک ملک میں قومی زبان کا نفاذ نہ ہوسکا۔ وجہ یہ ہے کہ ہمیں جو ارباب اختیار ملے۔ ا±نہیں مقاصد پاکستان کا علم ہی نہیں۔ 73 ءکے آئین میں بھی درج ہے کہ پندرہ سال تک یعنی 1988ءتک ملک میں قومی زبان ا±ردو کو نافذ کردیا جائے گا مگر حکمرانوں کے ساتھ خود اعلیٰ عدلیہ نے بھی آئین کی اس شق کی طرف سے جس کا براہ راست تعلق قائداعظم ؒکے فرمان اور قومی سلامتی سے ہے جان بوجھ کر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اب تو 75سال بعد رونا آتا ہے۔ یہ ناعاقبت اندیش ٹولہ اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ ہر زندہ وغیرت مند قوم کو اپنی ثقافت عزیز ہوتی ہے اور وہ اسے کسی قیمت پر بھی مٹتے ہوئے یا برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی چاہے اس کے لئے اسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ ہم آج 75سال بعد بھی ایک غیر ملکی زبان کے سحر میں گرفتار ہیں۔ ہمارے اس احساس کمتری کا حال یہ ہے کہ ہمارے مکانوں، محلوں، راستوں، اداروں، کارخانوں حتیٰ کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاءتک کے نام غیر ملکی ہیں۔ ہم من حیث القوم اپنی انگریزی پسندی میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ شاید انگریز بہادر خود بھی اپنے آپ کو اتنا پسند نہ ہو جتنا کہ ہمیں پسند ہے۔ ہمیں اپنی ثقافت مقدم اور عزیز کیوں نہیں ہے؟ آج ہمارے بچے ان کتابوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں جو کبھی ہمارے لئے مشعلِ راہ تھیں۔ کبھی ہم نے اس پہلو پر غور کیا ہے کہ اپنی ثقافت سے دوری کے نتائج کیا نکلیں گے کچھ تو سامنے آرہے ہیں جو قوم دوسروں کی شرکت کی بھی روادارنہ تھی وہ اب اغیار کی بھیک پر قانع ہے۔
سائنسی علوم کی تعلیم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ انگریزی کے علاوہ کسی اورزبان میں کامیابی سے نہیں دی جاسکتی حالانکہ بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ”غیر ملکی زبان کی وساطت سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ مشکل سے حاصل ہوسکتا ہے اس لئے کہ یہ قدرت ہم میں سے بہت کم کو نصیب ہوتی ہے کہ اپنی زبان کی طرح کسی غیر زبان کو بھی ایسا اپنالیں کہ اس میں خیالات کے افہام و تفہیم میں ہمیں دِقت نہ ہو۔ طبعی علوم کو عوام تک پہنچانے کے لئے تو اپنی زبان اختیار کرنے کے علاوہ چارہ ہی نہیں… لہٰذا طبعی علوم کے ماہرین اگر اس قوم میں ان علوم کا ذوق پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اپنی زبان میں منتقل کریں۔ اپنی زبان میں سوچیں اور اپنی زبان میں لکھیں اپنی زبان میں سمجھیں اور اپنی زبان میں سمجھائیں۔یقین جانیے کہ ہماری بقاءاور ہم آہنگی کا راز اسی میں م±ضمر ہے۔ بقولِ شاعر :
ظ±لمتِ شب سے اندازئہ انجام نہ کر
رات کی رات میں انجام بدل سکتا ہے

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...