کون میرے ذہن پر ہے اِس طرح چھایا ہوا
جس طرح ہو چشمِ نم میں سیلِ ت±ند آیا ہوا
کس نے مسند پر بٹھایا ہر کس و ناکس کو پھر
صاحبِ مسند کو دیکھو ، وہ ہے گھبرایا ہوا
جس کو دیکھو وہ کمانِ جبر کا نخچیر ہے
م±رغِ بسمل خود ہے تڑپا، یا ہے تڑپایا ہوا
یہ سگانِ تاج و تختِ بادشاہی ہیں رذیل
کتنے درویشوں نے یہ منصب ہے ٹ±ھکرایا ہوا
بادشاہوں کی لحد کا اب نشاں ملتا نہیں
گور پر پرچم فقیروں کی ہے لہرایا ہوا
جب سے گ±لشن میں چلی بادِ سمومِ ش±علہ زن
جو بھی غ±نچہ میں نے دیکھا، وہ تھا م±رجھایا ہوا
جعفری چھوڑو ا±لجھنا اسِ فتنہ باز سے
یہ تو ہے اِبلیس کے چیلوں کا بہکایا ہوا
( ڈاکٹر مقصود جعفری،اسلام آباد)
غزل
Aug 28, 2022