وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی زیر صدارت ہونےوالے اجلاس میں بعض ناقابل فہم فیصلے کئے گئے ہیں جن کا ملک کی تباہ حال معاشی صورت حال میں جواز تلاش کرنا خاصا دقت طلب کام ہے، کمیٹی نے جوتوں، کاسمیٹکس، میک اپ کے سامان، کنفیکشنری، کراکری، فرنیچر، مچھلی، منجمد خوراک، پھل، خشک میوہ جات، نجی اسلحہ، پر تعیش گدے، سلیپنگ بیگ، جام جیلی، دھوپ کی عینکیں، آلات موسیقی، سیلون اور شیونگ کے سامان سمیت تیس کیٹگریز کی مختلف اشیائے تعیش کی درآمد پر عائد پابندی ختم کرنے کی منظوری دے دی قبل ازیں ملک کی نازک معاشی حالت کے پیش نظر 19 مئی کو ان اشیائے تعیش کی درآمد پر پابندی لگائی گئی تھی، اقتصادی رابطہ کمیٹی نے جمعرات کو اپنے اجلاس میں جن 545 اشیاءکی درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ان میں بارہ اقسام کے ٹریولنگ بیگ اور سوٹ کیس، دو اقسام کے دھوپ کے چشمے، بارہ اقسام کے آلات موسیقی، سات اقسام کا پاستہ اور میکرونی، ستر اقسام کا اسلحہ، ستائیس اقسام کے موبائل فون، چھ اقسام کا گوشت،پانچ اقسام کے فوم کے گدے، دس اقسام کی چمڑے کی جیکٹیں اور ملبوسات، بہتر اقسام کی جام جیلی، دس اقسام کی برانڈڈآئس کریم، تریسٹھ اقسام کے الیکٹرانکس اور گیس سے چلنے والے ہوم ایپلائنسز، چوبیس اقسام کا فرنیچر اور لکڑی کی مصنوعات، تیئس اقسام کے خشک میوہ جات، سولہ برانڈز کے جوتے اور چپل، بتیس اقسام کی مچھلی، سات بڑی کمپنیوں کے تیار کردہ دروازے اور فریم، دو کمپنیوں کی بنائی ہوئی بلیوں اور کتوں کی خوراک، پندرہ اقسام کی گھریلو سجاوٹ کی اشیا، بتیس اقسام کے برتن اور ڈنر سیٹ، ستائیس اقسام کے کاسمیٹکس اور شیونگ کا سامان، چار اقسام کا کارن فلیکس، دس اقسام کی ٹافیاں اور کینڈیز، نو عالمی برانڈزکے سگریٹ، چار اقسام کی چاکلیٹ، سات اقسام کے برقی قمقمے، اٹھارہ اقسام کے غیر ملکی قالین، انیس اقسام کی باتھ روم کی اشیا، سات اقسام کے جوسز اور منرل واٹر شامل ہیں۔ 49 اقسام کی گاڑیاں بشمول بلٹ پروف گاڑیاں، تمام اقسام کے موبائل فون اور 63 اقسام کی الیکٹرانک اور گیس کی ہوم ایپلائنسز کی درآمد پر پابندی برقرار رہے گی۔ جن اشیاءکی درآمد کی اجازت دی گئی ہے ان کی فہرست پر دوبارہ نظر ڈالئے، ان میں ایک بھی چیز ایسی نہیں جس کی درآمد کے، بغیر اہل وطن کا گزارا نہ ہو سکتا ہو، ان میں سے کم و بیش تمام اشیاءپاکستان کے اندر بنتی اور بہ افراط دستیاب ہیں، اس فیصلے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ملک میں زر مبادلہ کے ذخائر کی ریل پیل ہے اور ان اشیاءکی درآمد کیلئے ڈالر نامی کرنسی وافر تعداد میں دستیاب ہے جب کہ عملی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ڈالر ڈھونڈے سے نہیں ملتا اور وہ پاکستانی کرنسی روپے کو بری طرح روندتا ہوا تیزی سے آسمان کی بلندیوں کی جانب محو پرواز ہے، ملک کی سسکتی ڈوبتی معیشت میں ہمارے حکمرانوں کی اشیائے تعیش کی درآمد کی اجازت دینے کی حکمت عملی سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ پہلے ہی ملک کا تجارتی خسارہ بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے، اشیائے تعیش کی درآمد کی حالیہ اجازت سے قبل ہی عالم یہ ہے کہ تجارتی خسارہ ایک سال پہلے کے 30 ارب 96 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں تیس جون کو ختم ہونےوالے مالی سال میں 48 ارب 66 کروڑ ڈالر کی ریکارڈ تاریخی سطح کو چھو رہا ہے اور اس خسارہ کا بڑا سبب توقع سے زیادہ درآمدات ہی ہیں جن کے باعث خسارے میں 57 فیصد اضافہ سامنے آیا ہے۔ مئی 2022ءمیں حکومت کی جانب سے 800 سے زائد اشیاءکی در آمد پر پابندی کے باوجود یہ خسارہ خطر ناک حد تک پہنچ چکا ہے دوسری جانب ہماری برآمدات دو ارب 80 کروڑ ماہانہ پر رکی ہوئی ہیں جب کہ درآمدی بل 2021-22ءکے مالی سال کے دوران 45ء43 فیصد اضافہ کے ساتھ 80 ارب 51 کروڑ ڈالر ہو گیا جو ایک برس قبل 56 ارب 12 کروڑ ڈالر تھا۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ مئی میں 800 اشیاءکی درآمد پر پابندی کے باوجود جون میں ہمارے درآمدی بل میں کمی کی بجائے 14.32 فیصد اضافہ ہوا۔ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری قومی معیشت کس قدر دباﺅ کی شکار ہے اسکے باوجود وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے ساڑھے پانچ صد غیر ضروری اشیاءکی بیرون ملک سے درآمد کی اجازت دینے کا واضح مطلب اسکے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے حکمران جانتے بوجھتے معیشت کو تباہی سے دو چار کرنے کے در پے ہیں وہ فیصلے ملکی مفاد کی بجائے اندرونی اور بیرونی آقاﺅں کے دباﺅ اور ان کی خوشنودی کو پیش نظر رکھ کر کرتے ہیں۔ ہماری اقتصادی رابطہ کمیٹی کا یہ تازہ فیصلہ اس لحاظ سے یقیناً بہت تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے کہ اسکے نتیجے میں حکمرانوں کے بعض بیرونی آقا اور اندرون ملک درآمد کنندگان تو شاید خوش ہو جائینگے مگر اسکے سبب قومی معیشت کو جس خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا اس کی کسی کو پرواہ نہیں، پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ ملک میں کوئی ایسی قوت موجود نہیں جو حکمرانوں کے ملک و قوم کے مفاد کے منافی فیصلوں پر ان کا ہاتھ پکڑ سکے!!!
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اسی اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ بیرون ملک سے مجموعی طور پر سولہ لاکھ ٹن گندم درآمد کی جائیگی جس میں سے پانچ لاکھ ٹن گندم کی درآمد کے ٹینڈر کی منظوری کمیٹی نے دےدی۔ یہ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے دعویدار ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہایت ذرخیز زمین اور موزوں موسم سے نوازا ہے مگر ہم اپنی بے تدبیری اور نا اہلی کے باعث گندم جیسی بنیادی ضرورت بیرون ملک سے درآمد کرنے پر مجبور ہیں اور اس درآمد پر بھی زر مبادلہ میں سے خطیر رقم خرچ کرنا پڑتی ہے حالانکہ اگر ذرا سی توجہ دی جائے تو اپنے کسان اور زرمیندار کو بعض آسانیاں اور بروقت ترغیبات فراہم کر کے ہم اپنی گندم کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتے ہیں۔
ایک فیصلہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اپنے اس اجلاس میں یہ بھی کیا کہ پٹرول اور ڈیزل پر پٹرولیم ڈیلرز کا منافع بڑھا کر سات روپے فی لٹر کر دیا جائے ظاہر ہے کہ اس کا بوجھ بھی صارفین ہی کو برداشت کرنا پڑےگا جن کی کمر پٹرولیم مصنوعات کی ناقابل برداشت قیمتوں کے باعث پہلے ہی ٹوٹ رہی ہے۔ اس ضمن میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ جہاں مناسب شرح منافع پٹرولیم ڈیلرز کا حق ہے وہیں ملاوٹ سے پاک اور پوری مقدار میں ڈیزل اور پٹرول وغیرہ حاصل کرنا صارفین کا بھی حق ہے جبکہ اس کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر اس وقت انتہائی مہنگی ہونے کے باوجود پٹرولیم منصوعات ملاوٹ سے پاک اور پوری مقدار میں ملک بھر میں شاید ہی کہیں دستیاب ہوں، کیا حکومت اور پٹرولیم ڈیلرز اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جانب بھی توجہ دیں گے؟
سسکتی معیشت اور حکمرانوں کی عیش پرستی
Aug 28, 2022