20اگست کی دوپہر کو پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم مظہر نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ ڈاکٹر سید محمد اکرم شاہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس اطلاع نے مجھے دکھی کر دیا اگرچہ یہ خبر اتنی اچانک بھی نہیں تھی۔ وہ چند سال سے علیل تھے۔ بڑھتی عمر کے بعض عارضے لاحق ہو چکے تھے۔ ایک سال پہلے وہ بہت بیمار ہو گئے تھے اور کئی دن ہسپتال میں رہے۔ کچھ دن بے ہوشی کی کیفیت رہی۔ انھی دنوں ان کے بڑے بیٹے کا بھی اچانک انتقال ہو گیا۔ ہوش میں آئے تو یہ بڑا صدمہ بھی سہنا پڑا۔ خدا نہ کرے اس صدمے سے کسی کو بھی گزرنا پڑے۔ ان کی عمر اب تقریباً نوے سال تھی۔ بدقسمتی سے انھی دنوں بینائی بھی رخصت ہو گئی۔ پھر اچانک حرکتِ قلب رک گئی اور بحال نہ ہو سکی۔ نمازِ جنازہ نمازِ مغرب کے بعد ممدوٹ بلاک مصطفےٰ ٹا¶ن میں ان مکان کے قریب واقع ایک مسجد میں ادا کی گئی جس میں ان کے عزیز و اقارب، رفقائے کار، شاگردوں اور دوسرے جاننے والوں کی خاصی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ ہر کوئی سوگوار تھا اور ان کی فطرتِ سلیم اور علمی مقام کا ذکر کر رہا تھا۔
افسوس یہ ہے کہ اتنی بڑی علمی شخصیت کی رحلت پر کسی اخبار نے (سوائے ’نوائے وقت‘ کے) چھوٹی سے چھوٹی خبر شائع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ غالباً اس کی وجہ یہ بھی ہو گی کہ ہمارے اخبارات میں اوپر سے نیچے تک کام کرنے والے اب فارسی سے نابلد ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اخبارات کی خبروں اور دوسری تحریروں میں املاءاور انشاءکی اغلاط بہت بڑھ چکی ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں انگریزی ملی اردو کی کثرت ہے اور مزید یہ کہ کوئی کچھ سیکھنا بھی نہیں چاہتا تو پھر کسے معلوم ہو گا کہ فارسی ادب کا کتنا بڑا محقق، عالم اور شاعر دنیا سے رخصت ہو گیا ہے!
میں اور ڈاکٹر سید محمد اکرم شاہ اکرام اورینٹل کالج میں آگے پیچھے ہی لیکچرار مقرر ہوئے تھے۔ میں وسط 1963ءمیں آیا اور شاہ صاحب 1964ءکے شروع میں۔ ہم نے قریب قریب تیس سال رفقائے کار کی حیثیت سے کام کیا۔ ہمارے مثالی تعلقات تھے۔ وہ نو سال صدرِ شعبہ¿ فارسی، سات سال پرنسپل اورینٹل کالج اور سات سال ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرننگ رہے۔ اس عرصے میں میں بھی متعدد حیثیتوں میں اس ادارے سے منسلک رہا لیکن یہ انھی کا کمال تھا کہ مجھ جیسے تیز طبیعت شخص کے ساتھ انھوں نے قابلِ رشک وقت گزارا۔
سید محمد اکرم شاہ کا تعلق ضلع شیخوپورہ کے ایک گا¶ں سے تھا۔ سکول تک کی تعلیم شاہدرہ میں حاصل کی۔ ان کے بزرگ زمیندار تھے اور ان کے بہت سے مرید بھی تھے لیکن اکرم شاہ ان دونوں کاموں سے بے نیاز زندگی بسر کر گئے۔ سکول کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو ایف سی کالج میں داخل ہوئے جہاں سے انھوں نے 1958ءمیں بی اے پاس کیا۔ دو سال بعد فارسی میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پھر جلد ہی انھیں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے تہران یونیورسٹی ایران نے منتخب کر لیا۔ تین سال کے بعد پی ایچ ڈی کر کے واپس آئے تو اورینٹل کالج میں فارسی کے لیکچرار مقرر ہو گئے۔ درجہ بہ درجہ ترقی کرتے کرتے اتنے تعلیمی اور انتظامی عہدوں پر بیک وقت فائز رہے جس کی مثالیں بہت کم ہیں۔ اپنی طبیعت کے تحمل، سادگی، توازن، شائستگی اور فیض رسانی کے باعث ملازمت کا دورانیہ بہت عمدگی سے بسر کیا۔
1992ءمیں ریٹائر ہونے کے بعد یونیورسٹی نے ان کے علمی مقام کے پیش نظر انھیں ڈائرکٹر شعبہ¿ اقبالیات مقرر کر دیا جہاں انھوں نے علامہ اقبال کے فکر و فن پر بہت کام کیا اور کرایا۔ اس سلسلے میں تین ضخیم جلدوں میں ’دائرہ¿ معارفِ اقبال‘ بہت اہم کام ہے، پھر انھیں پروفیسر امیریٹس کا اعزاز دیا گیا۔ یونیورسٹی نے انھیں کبھی جانے نہ دیا حتی ٰکہ جب ان کی صحت جواب دی گئی تو وہ خود ہی چھوڑ کر چلے گئے۔ اقبالیات پر تحقیقی کام کے لیے انھوں نے بڑے اہم لوگوں سے تعاون حاصل کیا۔ ان لوگوں میں میں پروفیسر ڈاکٹر ظہور الدین احمد کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا جو فارسی میں میرے استاد بھی تھے اور زندگی کے سوویں برس میں بھی اتنی باقاعدگی سے شعبہ¿ اقبالیات میں آتے اور گھنٹوں کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے کہ میں ہمیشہ ان پر رشک کیا کرتا۔ یہ اکرم شاہ کا کمال تھا کہ انھوں نے ڈاکٹر ظہور الدین کو شعبے سے جانے نہیں دیا۔ ایک وائس چانسلر نے جو ریٹائرڈ جرنیل تھا، انھیں توسیع دینے میں لیت و لعل سے کام لیا لیکن شاہ صاحب نے انھیں وائس چانسلر سے ملوایا جس نے ان کی صحتِ عمومی اور قابلیت کا اندازہ کر کے توسیع کی اجازت دیدی۔
سید محمد اکرم شاہ مولانا روم کے بے حد عقیدت مند تھے۔ مثنویِ معنوی کا جس باریک بینی سے انھوں نے مطالعہ کر رکھا تھا شاید ہی کسی اور کو نصیب ہوا ہو۔ وہ علامہ اقبال سے بھی بے حد متاثر تھے۔ ان کا پی ایچ ڈی کا تھیسس ’اقبال در راہِ مولوی‘ اپنے موضوع پر بہت اچھا کام ہے جسے پاکستان اور بھارت کے علاوہ ایران میں بھی بہت سراہا گیا ہے۔ ایرانیوں نے شاہ صاحب کو متعدد دفعہ خصوصی لیکچر دینے کے لیے ایران میں مدعو کیا۔ وہ ایرانی لہجے میں بہت رواں فارسی تحریر و تقریر پر قادر تھے۔ ایرانی ان کے اس قادر الکلامی پر حیرت کا اظہار کرتے تھے۔ شاہ صاحب فارسی کے بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ ان کی فارسی شاعری کے تین مجموعے شائع ہوئے ہیں اور یہ اتنے اچھے فارسی اسلوب میں لکھی گئی ہے کہ پاک و ہند کی فارسی سے صاف الگ نظر آتی ہے۔ بڑے بڑے ایرانی علماءان کی فارسی شاعری کی بہت ستائش کرتے تھے۔ ایران کے ایک بڑے محقق آقائے سعید نفیسی نے ان کے ایک شعری مجموعے کا دیباچہ لکھا اور ان کے اسلوبِ شعر کی بہت تعریف کی۔ ان کی اردو شاعری کا ایک مجموعہ¿ قطعات ’آئینہ¿ آفاق‘ بھی شائع ہوا جو علامہ اقبال کے رنگ میں ہے۔
ہندوستان (اور پاکستان) میں فارسی علم و ادب کی روایت بہت طویل اور درخشاں ہے۔ یہاں کے فارسی شعراءسے نام کی حد تک سب واقف ہیں اور کون ہے جس نے امیر خسرو، عرفی، نظیری، فیضی، طالب آملی اور بیدل وغیرہ کا نام نہیں سنا۔ غالب اور اقبال کو عظیم فارسی شعراءکے طور پر سبھی جانتے ہیں۔ کوئی انھیں پڑھ سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے یا نہیں لیکن عمومی معلومات کی حد تک سب ان کی فارسی شاعری سے آگاہ ہیں لیکن اب بھی ہمارے شہروں اور قصبوں میں فارسی شعراءمل جاتے ہیں۔ کبھی تو ان کی تعداد سینکڑوں میں ہوا کرتی تھی اب کم ہوتے ہوتے درجنوں میں محدود ہو گئی ہے۔ ان کی فارسی شاعری ایرانی فارسی شاعری سے صاف طور پر مختلف نظر آتی ہے۔ اس شاعری کے انداز کو سبکِ ہندی کا نام دیا جاتا ہے۔
آج یہ بات صرف چند لوگوں کے علم تک محدود رہ گئی ہے کہ برصغیر نے فارسی لغات اور لسانیات میں ایسا بے نظیر کام کیا ہے جو ایرانیوں کو بھی نصیب نہیں ہوا۔ ان لوگوں میں سراج الدین علی خان آرزو فارسی زبان اور لغت کے صحیح معنوں میں علامہ تھے۔ شاہ صاحب نے آرزو کی تصانیف ’تنبیہ الغافلین‘، ’دادِ سخن‘ اور ’سراجِ منیر‘ کی تصحیح و تدوین کی اور یہ نہایت قابلِ قدر کام ہے۔ یہ کام اتنا مشکل ہے کہ اس کو انجام دینا کسی بڑے عالم ہی کا کام ہو سکتا ہے اور شاہ صاحب نے نہایت عمدگی سے ان تصانیف کو حیاتِ نو بخشی۔ افسوس ہم فارسی زبان و ادب سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ فارسی سے کم از کم مبتدیانہ تفہیم کے بغیر اچھی اردو سمجھی جا سکتی ہے اور نہ لکھی جا سکتی ہے۔ فارسی افعال اور ان کی ساخت سے آگاہی کے بغیر علامہ اقبال جیسے شعراءکے عام اشعار بھی سمجھ میں نہیں آ سکتے۔ ڈاکٹر اکرم شاہ فارسی کے ایک روشن چراغ تھے۔ اس چراغ سے بہت لوگوں نے اپنے چراغ جلائے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ کو آگاہ ہونا چاہیے کہ اب اکرم شاہ کی قابلیت اور صلاحیت کے بہت کم لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ اگر ہو سکے تو انھیں فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ سیاست اور حیلہ اور مکر اور دروغ اور مصلحت کب تلک؟ اس سے ہمیں اب تک کیا حاصل ہوا ہے اور آئندہ کیا حاصل ہو گا؟