ارباب وفکر نظر اس حقیقت سے خوب آگاہ ہیں کہ وقت کا فیصلہ اور تاریخ کی گواہی ثابت کرتی ہے کہ ہر قوم پر آزمائش کی وہ گھڑی ضرور آتی ہے جس میں کامیابی اورکامرانی صرف اسی طور ہی حاصل کی جاسکتی ہے کہ حقیقت پسندی ، دور اندیشی اور باہمی مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جائے ۔ اس کی ایک نہایت اور واضح اور روشن مثال تحریک پاکستان ہے جس کے دوران ہمارے قائدین نے اپنی دانشمندی کا بھرپور مظاہرہ کیا اورعوام نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب بھی ملک و قوم کسی فیصلہ ساز اور فیصلہ کن مرحلے پر آن کھڑے ہوئے تو جذباتی اور سطحی طر ز فکر و عمل پر اجتماعی دانش ہی غالب رہی ۔کچھ ایسی ہی صورتحال ان دنوں اس حوالے سے درپیش ہے کہ بجلی نرخوںمیں اضافے کے مسئلے پر حقیقت پسندی کی بجائے سیاسی نمبر سکورنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ درست ہے کہ بجلی نرخوںمیں اضافے سے ایک عامی کی روز مرہ زندگی متاثر ہوئی ہے لیکن اس کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے کہ مذکورہ اضافہ اس کی حب الوطنی اور طرز وفکرعمل پر اثر انداز ہوا ہے ۔اس صورتحال کے درپیش اور رونما ہونے کاایک بڑا سبب یہ ہے کہ عوام کو بجلی نرخوںمیں اضافے کا حقیقی پس منظر معلوم نہیںورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاک سر زمین پر اپنی جان تک نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار اور آمادہ اہل وطن بجلی نرخوں کی صورت میںکسی قربانی سے گریزاں ہوجائیں۔
بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا علم ہوگا کہ بجلی کی قیمت کا تعین عام طورپر دو امور پر ہوتا ہے۔ پہلا ایندھن کی قیمت اور دوسرا اس کی خریداری کے باب میں زرمبادلہ کی فراہمی اور حصول ۔اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو بجلی کی پید اوارکے سلسلے میں غیر ممالک سے فرنس آئل ، ڈیزل ، کوئلہ سمیت دیگر ایندھن درآمد کرنے پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح زرمبادلہ یعنی ڈالر کی شرح تبادلہ کے سلسلے میں بھی اتار چڑھاﺅکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہی وہ امر واقعہ ہے جس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور جو حکومت پاکستان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے یعنی ڈالر کی شرح تبادلہ کا تعین بین الاقوامی مالیاتی اداروں ، بینکاری شعبوں اور منڈی کے رحجانات پر ہوتا ہے ۔اسی سلسلے میں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ نجی سطح پر بجلی پیدا کرنے والے اداروں اور کارخانوں(یعنی آئی پی پیز)کو ادائیگی بھی ڈالرز میں ہی کرنا ہوتی ہے اور اس کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ یہاں پر اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہوگا کہ ڈالر کی شرح تبادلہ کے سلسلے میں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف ) کی طر ف سے یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ حکومت پاکستان ڈالر کی شرح تبادلہ کو مصنوعی طور پر کنٹرول نہیں کرے گی ۔یعنی ڈالر کی قیمت کا تعین اوپن مارکیٹ کرے گی ۔مالیات اور اقتصادیات کے ماہرین کی طرف سے اس امر کی نشاندہی بھی بلا شبہ فکر انگیز اور قابل توجہ ہے کہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں جو حیرت انگیز اضافہ مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ عمران حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو ملکی مفادات کو ترجیحی دیتے ہوئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو معاشی خود انحصاری سے نوازاجس کے نتیجے میں اب اگر ڈالر کی قیمت کو قابو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں وطن عزیز کے زر مبادلہ محفوظ ذخائر دباﺅ کا شکار ہوجاتے ہیں اور یوں معاشی اور مالی مشکلات کی شدت اور وسعت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
بجلی نرخوںمیں اضافے کا ذکر چل نکلا ہے تو اس حقیقت کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ بجلی کی چوری
(یعنی لائن لاسز)ایک ایسا سماجی مسئلہ ہے جو اخلاقی سطح پر اصلاح طلب ہے لیکن اس باب میں نتیجہ خیز اقدامات کا ہنوز انتظار ہے۔ اگر کنڈے ڈال یا چوری چھپے بجلی چوری کے سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والے عناصر کے خلاف قانونی تادیبی کارروائی کسی تاخیر کے بغیر کی جائے یعنی ان کو عبرت کا نشان بنایا جائے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ بجلی کی وہ چوری ممکن نہ ہو جس کا خمیازہ بے گناہ ، بے قصور اور بے آسرا عوام کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح بجلی کے بل ادا کرنے میں جو تاخیر کی جاتی ہے اس کے نتیجے میں بھی بجلی کی پیداواری قیمت متاثر ہوتی ہے ۔ ان عوامل کی وجہ سے بجلی کا پیداواری شعبہ خسارے کا شکار ہوجاتا ہے جس کے لیے گردشی قرض (Circular Debt)کی وہ اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جس کو سنتے ہی ایک عامی حیران و پریشان ہوکر رہ جاتا ہے ۔ جہاں تک بجلی کے استعمال کا تعلق ہے تو اس حقیقت کا علم بہت کم لوگوں کو ہوگا کہ بجلی کا 75 فیصد استعمال گھریلو صارفین کرتے ہیں۔ صنعت، تجارت اور کاروباری سرگرمیوں کے لئے استعمال ہونے والی بجلی سے کاروباری سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں، اس بجلی کے استعمال میں اگر اضافہ ہو تو اس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوتا ہے لیکن گھریلو صارفین کے بجلی کے استعمال کے نتیجے میں انہیں بجلی کے زیادہ بل آتے ہیں جن سے عوام میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک مناسب حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ گھریلو صارفین بجلی کے باکفایت استعمال کی عادت اپنائیں۔ یہ حقیقت بھی مد نظررہے کہ بجلی کے استعمال کے سلسلے میںہمیں دنیا کے دیگر ممالک کے قوانین ، ماحول اور طریقہ کار سے بھی استفادہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام، ادارے اور کاروبار کرنے والے زیادہ سے زیادہ سورج کی روشنی بروئے کار لاتے ہیںجبکہ ہمارے یہاں ملک میں رات گئے مارکیٹ اور کارباری مراکز کھلے رکھنے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ توانائی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر اس رحجان میں تبدیلی اور اصلاح وقت کا تقاضا ہے ۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مذکورہ احوال کو مد نظر رکھتے ہوئے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری کردی جائے۔ اس ضمن میں پی ٹی سی ایل (PTCL) اور سابقہ ٹی آئی پی (TIP) کی مثال دی جاتی ہے۔ عوام کو خوب یاد ہے کہ اس شعبے کی نجکاری سے قبل ٹیلی فون کی سہولت کا حصول گو یا جوئے شیر لانے کے مترادف تھالیکن جب اس شعبے کی نجکاری ہوئی اوربیرونی سرمایہ کاری کا حصول بھی ممکن ہوا تو اس شعبے میں مثالی کامیابی مشاہدہ کی گئی اور یہ مالی اعتبار سے منافع بخش شعبہ قرار پایا۔اس پس منظر میں وثوق کے کہا جاسکتا ہے کہ اسی مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے بجلی کے شعبے کی نجکاری بھی ناگزیر محسوس کی جارہی ہے ۔ معروضی حقائق کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ فیصلہ کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ناصرف مسابقت کا ماحول نشو ونما پائے گا جس سے خودکفالت کا راستہ ہموار ہوگا اور یقینی طور پر بجلی کے صارفین کو مالی اعتبار سے یوں فائدہ حاصل ہوگا کہ بجلی نرخوںمیں اضافے کی بجائے آسانی اور سہولت کے امکانات روشن ہوں گے۔
٭٭٭
بجلی نرخوں میں اضافے کے حقیقی اسباب
Aug 28, 2023