فیشن کی دنیا مین آئی تو گھروالوں کی سپوٹ رہی سوسائٹی کی نہیں

عنبرین فاطمہ
ماڈلنگ کی دنیا سے کیرئیر کا آغاز کرکے فیشن آئیکون بننے والی’’ فریحہ الطاف‘‘ اپنا ایک جدا انداز رکھتی ہیں انہوں نے فیشن انڈسٹری کو پروان چڑھانے کے لئے بہت محنت کی ،آج فیشن کی دنیا میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کا سہرا فریحہ الطاف کے سر ہے۔ نوائے وقت نے فریحہ الطاف سے معروف فیشن ڈیزائنر علی ذیشان کی ایک تقریب میں ملاقات کی اور اس موقع پر ان کے فیشن کے سفر کے بارے میں بات کی۔ فریحہ الطاف نے بات کا آغا ز کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تمام فیشن ڈیزائنرز بہت اچھا کام کررہے ہیں، ہر کسی کے کام کا انداز دوسرے سے مختلف ہے لیکن علی ذیشان کے کام کا انداز منفرد ہے۔ میں ان کو تب سے جانتی ہوں جب ان کا ایک چھوٹاسا سٹوڈیو تھا ، آج وہ اپنے منفرد کام کی وجہ سے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیںوہ اپنے کلچر کو زندہ رکھنے کیلئے مختلف چیزیں اپنے کام کے ذریعے کرتے رہتے ہیں۔بہت کم ڈیزائنرز ایسے ہیں جو اس چیزکا خیال رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فیشن جو ہوتا ہے وہ آتا جاتا رہتا ہے لیکن سٹائل ہمیشہ رہتا ہے ،میری فیشن اور سٹائل کو لیکر جو سب سے بڑی انسپریشن رہی ہیں وہ ہیں میری والدہ ،ان کو فیشن اور سٹائلنگ کا بہت شوق تھا میرے والد ان کے لئے ساڑھیاں لاتے تھے میری والدہ سیلونز میں جا کر تیار ہوتی تھیں ، ہائی ہیلز پہنتی تھیں ، میں ان کی ہائی ہیلز کی جوتیاں اکثر گھر میں ہی پہن کر گھوما کرتی تھی، مجھے میری والدہ کا سٹائل بہت اچھا لگتا تھا۔میری والدہ کی فیشن کی حس بہت اچھی تھی وہ ایک بہترین جوڑا تیار کروا کر پہنتی تھیں ، وہ اپنے بالوں کے سٹائل پر بھی بہت توجہ دیتی تھیں ، اور ان کے پاس جو جیولری کی کلیکشن تھی وہ کمال کی تھی۔ایک وقت ایسا آیا کہ میں باہر پڑھنے کے لئے چلی گئی میں نے فیشن اور آرٹ کی ڈگری لی اور دھیان میرا پہلے ہی فیشن اور سٹائل کی طرف تھا لہذا اسی میں کیرئیر بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے سب سے پہلے ماڈلنگ کرنے کا فیصلہ کیا عملی طور پر اس فیلڈ میں بھی آگئی۔ تین سال تک میں نے ماڈلنگ کی ، میرے گھر والوں نے مجھے بہت سپورٹ کیا میرے بھائی بہن والدین سب نے میری حوصلہ افزائی کی یوں مجھ میں لگن مزید بڑھ گئی کہ میں نے اس شعبے میں بہت دور تک جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کس کو پسند نہیں ہے کہ ریمپ پر چلے اچھے کپڑے پہنے ، دنیا کی سیر کرے۔ میں بہت خوش تھی کہ میری فیملی مجھے سپورٹ کررہی ہے ، لیکن میں نے دیکھا کہ سوسائٹی اس چیز کو قبول نہیں کررہی مجھے کہا جاتا تھا کہ تم ماڈل بن گئی ہو اب تمہارا اچھا رشتہ نہیں آئیگا ، کوئی تمہیں اچھا نہیں سمجھے گا۔ یہ چیز میرے لئے تکلیف دہ تھی ، آپ یہ دیکھیں کہ فیملی کی فل سپورٹ کے باوجود مجھے سوسائٹی کی طرف سے قبولیت نہیں مل رہی تھی جو کہیں نہ کہیں میرے ذہن پر اثر انداز ہو رہی تھی لیکن میں نے اپنے حوصلے ہر دم بلند رکھے۔ ایک وقت تھا جب میرے اسی کام کی مخالفت ہوتی تھی آج مجھے فیشن آئی کون کہا جاتا ہے لیجنڈ کہا جاتا ہے تو کبھی کبھی ہنسی بھی آتی ہے لیکن ٹھیک ہے وقت بدلتا ہے ہماری سوسائٹی بھی بدلی ہے اب ذرا پہلے کی نسبت فیشن کے شعبے کی قبولیت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے ہمارے زمانے میں مردوں کی زہنیت ایسی تھی کہ اگر کوئی لڑکی گھر سے باہر نکلی ہے کام کی غرض سے اور خصوصی طور پر ماڈلنگ کی دنیا میں آئی ہے ، یقینا یہ اچھی نہیں ہو گی ، اسلئے مجھے سخت ہونا پڑا اپنے ارادوں میں ، اور میں نے ٹھان لیا کہ سخت ہونا ہے اور اپنی صلاحیتوں کو منوانا ہے۔ میں نے ماڈلنگ چھوڑی اور فیشن ایونٹس کرنے شروع کر دئیے ،اب دیکھیں کہ فیشن ویکس ہوتے ہیں ، سٹائل ایوارڈز ہوتے ہیں۔بہت سارے فیشن میگزینز ہیں یہ سب آہستہ آہستہ ممکن ہوا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی لیکن تبدیلی آئی اور میری محنت رنگ لائی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ انسان کو خود پر اعتماد ہو تو وہ بہت کچھ کر سکتا ہے میں نے بھی خود پر اعتماد کیا اور آگے بڑھتی رہی اور جو میں نے چاہا اسکو حاصل بھی کر لیا۔ اگر آپ بھی زندگی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو پکا ارادہ کر لیں اور کبھی بھی اس ارادے سے پیچھے نہ ہٹیں چاہیے لاکھ مشکلات کیوں نہ آئیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماڈل ہونے کیلئے سائز زیرواور قد لمبا ہونا ضروری نہیں ہے یہ سٹیریو ٹائپ باتیں ہیںاب ایسا بالکل نہیں ہے ہر بندہ خوبصورت ہوتا ہے اور بن بھی سکتا ہے۔ بس اہم بات یہ ہوتی ہے کہ اسکو خودپر کتنا اعتماد ہے اور وہ کیا کرنا چاہتا ہے اپنی زندگی میں۔انہوں نے فیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں فیشن اسی کی دہائی میں آیا اس سے پہلے تو درزی ہی ہوا کرتے تھے ، زیادہ سے زیادہ خواتین ہلال سلک پیلس چلی جایا کرتی تھیںاور ساڑھیاں خرید لیا کرتی تھیں ،لیکن جیسے ہی ہمارے ہاں بھی کٹس پر کام ہونے لگا تو یقینا ہمارے فیشن میںبھی جدت آنے لگی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فیشن ڈیزائنرز نے جب کام شروع کیا تو یقینا ان کو مشکلات کا سامنا تھا لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ ڈیزائنرز کون ہوتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ کرکے ہر طبقے میں اس حوالے سے شعور بڑھا اور پتہ چلا کہ ڈیزائنر کون ہوتا ہے یا اس کے بنائے ہوئے جوڑوں کی کیا اہمیت ہوتی ہے، آج پاکستان میں ہر طبقہ ڈیزائنر جوڑا زیب تن کرنا چاہتا ہے اب تو ہر ڈیزائنر نے ہر طبقے کیلئے کلیکشنز بنانا شروع کر دی ہیں۔فریحہ الطاف نے کہا کہ میرا فیشن کا سفر کسی طور آسان نہ تھا ہر کام مستقل مزاجی مانگتا ہے اور میں نے مستقل مزاجی کا دامن نہیںچھوڑا ، میں سب سے کہنا چاہوں گی کہ زندگی میں جو بھی کرنا ہے اس کا ایک بار فیصلہ کریں اس کے بعد اس کو کرنے کیلئے دن رات کوشش میں لگے رہیں عارضی ناکامیوں کی وجہ سے اپنے ارادوں کو ترک نہ کریں کامیابیاں ناکامیاں سفر کا حصہ ہوتی ہیں۔ اگر ان سے گھبرا کر اپنا ارادہ ہی ترک کر دیں گے تو پھر کسی بھی کام میں کامیابی کم ہی ملے گی۔یہ تو تھیں فریحہ الطاف کی باتیں لیکن ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ فریحہ الطاف ایک ایسی خاتون ہیں جو زندگی کے ہر لمحے کو جیتی ہیں اور ان کو اپنی بڑھتی ہوئی عمر کا ایک فیصد بھی ملال نہیں ہے ایک بار انہوں نے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے لکھا تھا کہ ’’ وہ پرسکون ہیں، انہیں کوئی ملال نہیں کہ وہ زائد العمر ہوگئیں، وہ اس بات پر خوش ہیں کہ وہ خوبصورت اور اچھے لوگوں کے ساتھ ہیں اور زندگی اب بھی باقی ہے اور انہیں بہت کچھ کرنا ہے‘‘۔

ای پیپر دی نیشن