الیکشن نوے دن میں ہوتے ہیں یا ایک سو اسی دن میں ہوں گے یہ طے ہونا ابھی باقی ہے ۔آنے والے دنوں ملک میں معاشی،سیاسی اوراخلاقی حالات کیسے ہوں گے یہ سوال بہت سوں کو پریشان کررہا ہے۔ اگر امن و امان کا مسئلہ ہوا یا مہنگائی کی وجہ سے بحرانی کیفیت پیدا ہوئی توالیکشن ملتوی بھی کیے جاسکتے ہیں۔اس لیے جمہوری سفر کو جاری رکھنے کے لیے آج ساری سیاسی جماعتوں کو سوجھ بوجھ سے کا م لینے کی ضرورت ہے ۔لولی لنگڑی سہی لیکن جمہوریت کی گاڑی چلتی رہنی چاہیے۔جمہوری عمل کی بقا کے لیے سیاسی جماعتوں کو یک جہتی کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نا تھی۔یہ درست ہے کہ ملک میں جمہوری طرز حکومت کی ہیٹرک مکمل ہوچکی ہے یعنی پاکستان میں مسلسل تیسری بار پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرچکی ہے ۔گزشتہ تین انتخابات کے بعد تین مختلف سیاسی جماعتو ںکے نصیب میں وزیر اعظم کامنصب آیا لیکن تینوں باریوں میں ایک قدر مشترک تھی کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا وزیر اعظم پانچ سال پورے نہ کرسکا ۔یوسف رضا گیلانی ،نواز شریف اور عمران خان تینوں وزرا اعظم کو مدت پوری کرنے سے پہلے منصب سے الگ ہونا پڑا۔لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ جموریت چلتی رہی ۔اب پی ڈی ایم حکومت ختم ہوچکی ہے لیکن نگران حکومت ،الیکشن کمشین اور کچھ سیاسی پنڈت اس بات کا اشارہ کررہے ہیں کہ انتحابات نوے دن کے اندر منعقد ہونا ناممکن ہے ۔کچھ ایسی آوازیں سننے میں آرہی ہیں کہ شاید اگلے سال بھی الیکشن نہیں کروائے جائیں گے لیکن کچھ سیانوں کے خیال میں الیکشن اگلے سال فروری یا مارچ میں ہوجائیں گے ۔پاکستان میں مہروں کا عجیب کھیل کھیلا جارہا ہے۔سیاسی بساط بچھ چکی ہے پیپلزپارٹی مہرے کھیلنے میں بے حد جلدی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ گزرے پانچ سالو ںمیں پیپلزپارٹی نے ایک طرف بڑی حد تک مقتدر قوتوں سے تعلقات بہتر کیے ہیں اور دوسری طرف پارٹی کو از سر نو تیارکرتی دکھائی دی ہے۔بلاول بھٹو نے وزیر داخلہ کے منصب کا بھر پور فائدہ اُٹھایا اور عالمی دنیا کے راہنماوں سے اپنے رابطے بہتر کیے۔شہباز شریف ملکی عوام کو مہنگائی کے ٹیکے لگارہے تھے ان دنوں بلاول بھٹو نہ صرف سیاسی میدان میںمتحرک تھے بلکہ آصف زرداری کے طے شدہ اہداف کی جانب خاموشی سے بڑھے چلے جارہے تھے۔مسلم لیگ نون کے ترجمان میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی کئی بار تاریخیں دے چکے ہیںلیکن میاں صاحب کو بہت سی قانونی مشکلات وطن سے دور رکھے ہوئے ہیں۔تجزیہ نگاروں کے مطابق میاں نواز شریف واپسی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے ہٹنے کے منتظر ہیں اس لیے وہ وطن واپس آنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے ہیں ۔شہباز شریف ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر قرار دئیے جاتے رہے ہیں لیکن ان کی عوامی مقبولیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔استحکام پاکستا ن پارٹی میں ایسے لوگ شامل ہو چکے ہیں جنہیں الیکٹیبلز کہا جاتا ہے ۔اگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جیل میں بند رہے اور میاں نواز شریف وطن واپس نہ آسکے تو جہانگیر ترین کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے بھی ایم کیو ایم،مولانا فضل الرحمن کی طرح پارلیمنٹ میں پریشر گروپ بنانے جتنی نشستیں جیت سکتے ہیں ۔سیانے کہتے ہیں کہ اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہی پیپلز پارٹی نوے دن کے اندر انتخابات کے لیے تیار نظر آرہی ہے لیکن اگر پیپلز پارٹی کی تاریخ دیکھی جائے تو اس جماعت کی قیادت نے ہمیشہ عوامی ووٹ کا نعرہ بلند کیا ہے ۔محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے باوجود آصف علی زرداری نے انتخابات وقت پر کرانے کی بات کی تھی۔ جو بھی بات کریں لیکن ملکی سیاسی منظر نامے میں کچھ بھی واضع نہیں ہے ۔کسی بھی سیاسی جماعت کو پارلیمنٹ میں واضع برتری ملتی نظر نہیں آرہی ہے یعنی اگلے انتخابات میں بھی روای چین نہیں لکھ رہا ہے۔
عوام مہنگائی سے پریشان ہے ۔لوگ بجلی کے بڑھتے نرخوں سے پریشان ہوکے سڑکوں پر نکل رہے ہیں ۔پٹرو ل،ڈیزل اور گیس کے نرخ بتدریج بڑھ رہے ہیں ۔جیسے جیسے ڈالر اونچی اُڑان بھرتا ہے ویسے ویسے ہر چیز مہنگی ہورہی ہے ۔ پچھلے پانچ سالوں میںملکی سیاست،معیشت اور معاشرت میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔آئی ایم ایف سے قرض کن شرائط پر لیا ہے یہ تو اسحاق ڈار اور ان کے وزیر اعظم ہی بہتر سجھتے ہوں گے لیکن جس تیزی سے مہنگائی ہورہی ہے نئے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں انہیں دیکھا جائے تو عوام کو ایک ہی نقطہ سمجھ آرہا ہے کہ اس قرض کے بدلے ملکی عوام کا معاشی قتل عام کرنا طے ہوا ہوگا ۔اب یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ ملکی عوام کن حالات میں وقت گزار رہی ہے ۔غریب و مساکین اور سفید پوش لوگ کس مشکل کا سامنا کررہے ہیں ۔کاروباری طبقہ کن مسائل کا شکار ہے ۔پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں نے متوسط طبقے کے لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔کار والے موٹر سائیکل اور موٹر سائیکل والے رکشوں پر دھکے کھارہے ہیں۔سبزیاں ،دالیں اور چکن عام شہریوں کی خرید سے باہر ہوچکاہے۔ سفید پوشی کا بھرم رکھنامشکل ہوچکا ہے ،غریب کا جینا محال ہوچکا ہے۔
انتخابات میں بہت کم وقت رہ گیا ہے ۔ بظاہر ہر جماعت اپنے اپنے حساب سے تیاری پکڑ رہی ہے۔لیکن کوئی یہ نہیں بتاسکتا ہے کہ بادشاہ کا تاج کس کے سر سجے گا ،کسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے گا ۔