پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے آخری آٹھ ماہ اور موجودہ نگران حکومت کے ابتدائی 3 ہفتوں کے دوران ملک میں مہنگائی کی سونامی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے یہ تلخ حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے عوام کی مشکلات کو کم کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توجہ "مانگے تانگے کے ڈالروں"سے قومی خزانے کو بھرنے اور آئی ایم ایف کو آگے "منتیں َترلے"کرنے کی طرف مبذول رکھی۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا جبکہ دوسری طرف پٹرول ڈیزل ، بجلی، گیس ادویات اور روز مرہ ضروریات کی اشیاء کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کی وجہ سے پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں خاص کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کو آئیندہ انتخابات میں "چھٹی کا دودھ"یا د آجائے گا۔
یہ بھی ایک دکھ بھری داستان ہے کہ اِدھرعوام مہنگائی ، بے روز گاری اور غربت کی سونامی میں غوطہ کھا رہی تھی تو دوسری طرف صوبائی و وفاقی وزرا ء اراکین پارلیمنٹ اعلیٰ بیورو کریسی "مراعات کی گنگا"سے ہاتھ دھو رہے تھے۔ بجلی کے فی یونٹ نرخو ں میں آئے دِن ہونے والے ناقابلِ برداشت اضافے کی وجہ سے عوام سڑکوں پر نکل آئی ہے یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں مہنگائی میں ڈوبی عوام"کے حق میں آواز اْٹھانے کی بجائے مردم شماری، حلقہ بندیوں اور انتخابات کی تاریخ کو "آگے پیچھے"کرنے کے چکروں میں لگی ہوئی ہے جماعت اسلامی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے ملک بھر میں مہنگائی کے خلاف منظم تحریک جاری رکھی ہوئی ہے ۔
پٹرول ، ڈیزل، گیس، بجلی اور روزمرہ اشیاء کی موجودہ قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جس کا تمام تر بوجھ"عام عوام"کو ہی اٹھانا پڑتا ہے نگران حکومت کے سربراہ اور وزراء کہتے ہیں کہ ہمارا کام تو "صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات" کروانا ہے تو پھر گزشتہ تین ہفتوں کے دوران "ریکارڈ توڑ مہنگائی کیوں ہو رہی ہے اس کو کنٹرول کرنا اخر کس کی ذمہ داری ہے پٹرولیم کی قیمتیں ، ٹیکسوں میں اضافہ روپے کی بے قدری اور ڈالر کی ٹرپل سینچری، شرح سود میں اضافہ، بے روزگاری اور غربت میں مسلسل اضافہ کس کے کھاتے میں اضافے کا عمل مسلسل جاری ہے، توازن تجارت کے بگڑنے اور ملک کی مجموعی زرعی اور قومی پیداوار میں کمی کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جبکہ شرح سود ٹیکسوں کی شرح اور توانائی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کی وجہ سرمایہ کاری اور صنعتی پہیہ رک چکا ہے۔
کیا ہمارے حکمرانوں، پالیسی سازوں اور مالیاتی و معاشی ماہرین نے کبھی یہ سوچا ہے کہ قومی خزانے کو "مانگے تانگے کے ڈالروں "سے وقتی طور پر بھرنے سے ملک معیشت کو مضبوط بنانے اور ترقی دینے کا ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ "غبارے میں گیس بھرنے سے"غبارہ زیادہ دیر تک فضا میں بلند نہیں رہ سکتا، اسے جلد" ٹْھس " ہو کر نیچے گرنا ہی ہوتا ہے یہی حال ہماری معیشت کا بھی ہو رہا ہے یہ "دکھ بھری داستان ہے کہ ہم اپنی تباہ حال معیشت کو چلانے کے لیے سخت ترین شرائط پر قرضے تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن انہیں واپس کرنے کا "جان بوجھ"کر کبھی بھی نہیں سوچا۔ ہمارے اراکین پارلیمنٹ کو اپنی "تنخواہوں اور شاہانہ مراعات"سے آگے کچھ نظر نہیں آتا، یہ سو فیصد درست حقائق ہیں کہ ہمارے ہر ادارے کی اعلیٰ سطح کی بیورو کریسی کی" بے پناہ مراعات"کی وجہ سے قومی خزانے پر"ناقابلِ برداشت "بوجھ اور دباو "پڑرہا ہے عوام کے لیے پٹرول ، ڈیزل، بجلی گیس علاج معالجہ اور سفری سہولتیں پٹرولنگ"مہنگی سے مہنگی تر"جبکہ اراکین پارلیمنٹ اعلیٰ سطح کی بیورو کریسی کے لیے "مفت"یعنی "مال مفت دلِ بے رحم"۔یہ کس قدر تکلیف وہ امر ہے کہ جب تنخواہ دار طبقے یا بوڑھے بزرگ پنشنروں کی موجودہ قلیل پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے اضافے کی بات کی جاتی ہے تو حکمران سے بڑی "ڈھٹائی اور بے شرمی "کے ساتھ اسے قومی خزانے پر بوجھ قرار دے کر ان پسے ہوئے مظلوم طبقے کے زخموں پرنمک چھڑکتے ہیں۔
سخت ترین حالات و مشکلات میں کام کرنے والے ملازمین جو اب بڑھاپے کی زندگی گزار رہے ہیں ان کی پنشن میں محض17.50فیصد کا اضافہ کرکے "حاتم طائی کی سخاوت"کو بھی ماند کردیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو علم ہے کہ قلیل پنشن میں پنشنرز اپنی"زندگی کی گاڑی " کو کھینچ نہیں سکتے۔اپنے علاج کے لیے جان بچانے والی مہنگی ادویات بھی خرید نے کی سکت نہیں رکھتے۔
وگرنہ یہ ان کی موجودہ پنشن میں کم ازکم گریڈ ایک سے سولہ تک کے سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں کیے جانے والے 35فیصد اضافے کے برابر تو پنشن میں اضافہ کرتے لیکن یہ ایسی نیکی بزرگوں کے ساتھ کیوں کریں گے؟اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہمارے نگران حکمرانوں کے پاس ہر طرح کے مثلاً اختیارات آئی ایم ایف کے مطالبے اور شرائط پر من و من عملدر آمد کرنے ، مزید قرضے حاصل کرنے ، عوام پر پٹرول ، ڈیزل ، گیس بجلی اور مہنگائی کے بم گرانے، ٹیکسوں اور شرح سود میں
اضافے، ڈالر کو کھلی چھٹی دینے سمیت غیر جانبدارانہ اور شفاف الیکشن کروانے کے لا محدود اختیارات حاصل ہیں تو وہ مہنگائی کے آگے بند کیوں نہیں باندھتے؟ کیا عوام کے مسائل کو حل کرنا ان کی ذمہ داری نہیں؟
جنابِ وزیرِ اعظم "عزم صمیم کے ساتھ" قدم بڑھایئے اور ملک کو شاہراہ ترقی پر گامزن کر دیں۔ قوم کی دعائیں یقینا آپ کے ساتھ ہونگی۔
٭…٭…٭