شہباز شریف کی ’حقیقت پسندی‘

Aug 28, 2023

نصرت جاوید

شہباز شریف صاحب یقینا بہت عقل مند انسان ہیں۔ نوجوانی سے مشکلات کا حل ڈھونڈنے کے عادی بنائے گئے ہیں۔ان کے حقیقت پسند ذہن نے 1990ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی بطور رکن قومی اسمبلی بخوبی جان لیا تھا کہ وطن عزیز میں ’طاقت کا سرچشمہ‘ میرے اور آپ جیسے بے اختیار رزق کے محتاج نہیں بلکہ وہ قوتیں ہیں جنھیں احترام وخوف سے ’مقتدر‘ پکاراجاتا ہے۔ ’ان‘ کا ذہن پڑھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کو وہ ہمیشہ بے چین رہتے ہیں۔اسی باعث ان صحافیوں حتیٰ کہ اپنی ہی جماعت کے چند سرکردہ رہنمائوں سے بھی اجنبیت کی حدتک فاصلہ رکھتے ہیں جو ان کی دانست میں ’مقتدر‘ قوتوں کو ’مشکوک‘ محسوس ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے نعروں سے متاثر ہوئے خیال پرستوں کو شہباز شریف کا رویہ جمہوریت کے کلیدی رویوں سے روگردانی کرتا نظر آتا ہے۔ان کی ’جی حضوری‘ کا تمسخراڑایا جاتا ہے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان انھیں جب عوامی اجتماعات میں حقارت کے ساتھ بوٹ پالش کے ایک مشہور برانڈ کے نام سے پکارتے تو سامعین بھرپور انداز میں اسے سراہتے۔تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ بالآخر شہباز شریف کی مبینہ جی حضوری ہی ان کے بھائی اور جماعت کے کام آئی ہے۔
جولائی 2018ء کے انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے نامزد کردہ امیدواروں کے حوصلے بلند ر کھنے کے لیے نواز شریف اپنی دختر سمیت لاہور ایئرپورٹ اترے تھے۔ لاہور روانہ ہونے سے قبل وہ اپنی وفاشعار اہلیہ کو بسترمرگ پر تنہا چھوڑ آئے تھے۔ شہباز شریف مگر ایک بڑے ہجوم کے ساتھ ان کے خیرمقدم کو لاہور ایئرپورٹ پہنچنے میں ناکام رہے۔ نواز شریف کو محترمہ مریم نواز سمیت طیارے سے اترتے ہی گرفتار کرلیا گیا۔اس گرفتاری نے بالآخر اگست 2018ء میں عمران خان کو وفاق کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے ’قلعہ‘ شمار ہوتے پنجاب میں بھی حکومت تشکیل دینے میں آسانیاں فراہم کردیں۔اقتدار سنبھالتے ہی عمران خان ’چور اور لٹیروں‘ کو ’عبرت کا نشان‘ بنانے کی ضد میں جتے رہے۔ ’مقتدر قوتوں‘ نے اس ضمن میں ان کا بھرپور ساتھ دیا۔افراتفری کے اس موسم میں بھی شہباز شریف نے مذکورہ قوتوں تک پہنچنے کے راستے دریافت کرلیے۔نہایت لگن مگر خاموشی سے ایسا ماحول تشکیل دینے میں کامیاب رہے جس کی بدولت ’سزا یافتہ مجرم‘ ہوتے ہوئے بھی نوازشریف کو جیل سے پہلے ہسپتال اور بعدازاں لندن بھجوادیا گیا۔شہبازشریف نے یوں اپنے بڑے بھائی کو جیل کی اذیتوں اور ذلتوں سے بچالیا۔ ’برادرِ یوسف‘ کے طعنے سے بھی محفوظ رہے۔ اپنے بھائی کی راحت کے لیے مگر ایک ’ڈیل‘ بھی طے کرنا پڑی ۔اس کے نتیجے میں عمران خان کو ’دیدہ ور‘ کے مقام پر اچھالنے والی گیم کے حتمی ’سرغنہ‘ یعنی قمر جاوید باجوہ کوریاست پاکستان کے طاقتور ترین عہدے پر تین سال تک مزید براجمان رہنے کی پارلیمان میں موجود حکمران جماعت کے علاوہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں نے بھی فدویانہ منظوری فراہم کردی۔
قمر جاوید باجوہ اور ان کے ماتحت مذکورہ ’احسان‘ کا ’معاوضہ‘ نوازشریف کو لندن بھجوانے میں مدد دے کر پیشگی ادا کرچکے تھے۔ ’ایکسٹینشن‘ مل گئی تو عمران خان نے تلملا کر مسلم لیگ (ن) کے مزید رہ نمائوں کو احتساب بیورو کے ذریعے ذلت ورسوائی کا نشانہ بنائے رکھا۔ شہبازشریف بھی موصوف کے غضب کی تپش سے محفوظ نہ رہ پائے۔ بالآخر مگر مارچ 2021ء ہوگیا۔عمران خان کا رعب ودبدبہ اسلام آباد سے سینیٹ کی ایک نشست پر حکومت کے نامزد کردہ حفیظ شیخ کے بجائے یوسف رضا گیلانی کی قومی اسمبلی کے ووٹوں کی بدولت ہوئے انتخاب کی وجہ سے ریت سے بنائی دیوار ثابت ہوا۔عمران خان بطور وزیر اعظم اس سے گھبرا کر قومی اسمبلی سے ایک بارپھر اعتماد کا ووٹ لینے کو مجبور ہوئے۔ بعدازاں جون میں پیش ہوئے بجٹ کی منظوری کے لیے بھی انھیں ’سیم پیج‘ والوں پر انحصار کرنا پڑا۔
’سیم پیج‘ کی محتاجی کا مگر عمران خان کی خود پسند طبیعت کماحقہ ادراک نہ کرپائی۔ اکتوبر2021ء آیا تو ’اپنی ترجیح‘ کا ڈی جی آئی ایس آئی لگانے کو ڈٹ گئے۔ بالآخر اسی نام پر مگر دستخط کرنے کو مجبور ہوئے جس کا انتخاب ’وہاں‘ سے ہوا تھا۔ اپنی ’محدودات‘ عیاں ہونے کے باوجود خاموشی سے ’حساب برابر‘ کرنے کی ٹھان لی۔ اس کی وجہ سے ’سیم پیج‘ پر جو دوریاں رونما ہوئیں اس کا ان دنوں کی اپوزیشن جما عتوں نے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔
جن دنوں تحریک عدم اعتماد کا مہرہ چلانے کی تیاری ہورہی تھی مسلم لیگ (ن) کے بیشتر رہنما مجھ سے دوستوں کی رچائی کسی بے تکلف محفل میں مل جاتے تو انتہائی پریشانی سے اس خدشے کا اظہار کرتے کہ ’سب پہ بھاری‘آصف علی زرداری نے مذکورہ چال کا تن تنہا اہتمام کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ’ازلی ویری‘ ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی کے قائد نہایت ’ہوشیاری اور مکاری‘ سے ان کی جماعت کو عمران خان کی جگہ اقتدار سنبھالنے کو ’اکسا‘ رہے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ حکومت سنبھالنے کے بعد مہنگائی کا جو عذاب آئے گا مسلم لیگ (ن)اس کی ذمہ دار ثابت ہو۔ ’شہباز شریف‘ مجھے گھبراہٹ میں سمجھایاجاتا ’یہ گیم سمجھ ہی نہیں پارہے‘۔
مسلم لیگ (ن) کے دوستوں سے آصف علی زرداری کی ’چالاکی اور ہوشیاری‘ کا گھبراہٹ بھرا ذکر سنتا تو دل ہی دل میں مسکرادیتا۔ کم از کم دو افراد سے مگر یہ پوچھنے سے باز نہ رہا کہ وہ اپنی جماعت کے صدر یعنی شہباز شریف کو واقعتا اتنا معصوم سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے تئیں کائیاں اور تجربہ کار سیاسی کھلاڑی ہوتے ہوئے بھی آصف علی زرداری کی جانب سے بچھائے مبینہ جال میں پھنس رہے ہیں۔ میرے اٹھائے سوال کا جواب فراہم کرنے سے وہ ہمیشہ قاصر رہے۔ 
بہرحال مکدی گل یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گیم لگاتے ہوئے شہباز شریف ہرگز آصف علی زداری کے جھانسے میں نہیں آئے تھے۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کو فارغ کرنے سے قبل 1993ء کے آغاز میں ’مقتدرر قوتیں‘ انھیں اشارے دینا شروع ہوگئی تھیں کہ ان کے بڑے بھائی کی ’اتاولی طبیعت‘ کے مقابلے میں ان کا ذہن زیادہ ’پریکٹیکل‘ہے۔وہ انھیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر دیکھنا چاہیں گے۔ایسے پیغامات انھیں جنرل مشرف کے زمانے میں بھی ملتے رہے۔شہباز شریف مگر ’برادر یوسف‘ بننے کو آمادہ نہ ہوئے۔
اپریل 2022ء میں لیکن ان کے بڑے بھائی پاکستان میں موجود ہی نہیں تھے۔وہ موجود بھی ہوتے تو سپریم کورٹ سے آئے تاحیات نااہلی کے فیصلے کی بدولت وزارت عظمیٰ کے حق دار نہیں تھے۔انھیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر دھکیلنے کی ’تہمت‘آصف علی زداری پر لگی اور وہ ’بددلی‘سے اس پر فائز ہوگئے۔
اپریل 2022ء سے شروع ہوا کھیل اگست 2023ء میں ختم ہوگیا ہے۔ اب ’نئی گیم‘ درکار ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ جو’نئی گیم‘ شہبازشریف تیار کررہے ہیں وہ نوازشریف کو پاکستان کا چوتھی بار وزیراعظم بنانا چاہتی ہے۔اسی باعث وہ اقتدار سے فارغ ہوتے ہی لندن گئے اور اپنے بھائی کو پے در پے ملاقاتوں کے بعد قائل کرلیا کہ وہ اکتوبر میں وطن لوٹ آئیں۔خود کو درپیش ’قانونی معاملات‘ سے نبردآزما ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کی قیادت کرتے ہوئے اسے پرجوش انداز میں بارآور بنادیں۔
گزشتہ برس جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی گیم پک رہی تھی تو اس کالم میں تواتر سے متنبہ کرتا رہا کہ یہ گیم بالآخر مسلم لیگ (ن) کے گلے پڑجائے گی۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو خواہ مخواہ کے مشورے دینا میرا فریضہ ہے نہ عادت۔نواز شریف مگر موجودہ حالات میں وطن لوٹے تو شاید ان کے نام سے منسوب جماعت کی عزت تھوڑی بچی رہے۔ ان کی ذات کے حصے مگر اس کے باوجود کچھ نہیں آئے گا۔اس کے سوا جی کچھ لکھنے کو آمادہ نہیں ہے۔

مزیدخبریں