تمام سکولز میں ٹیچرز کی تعداد یکساں ہو گی، کہیں کم یا زیادہ نہیں ہو گی

مدتوں تک پنجاب کی سرزمین تین صوفیا کی تعلیمات کی دولت سے مالا مال رہی۔ حضرت داتا گنج بخش نے لاہور، بابا بلھے شاہ نے قصور اور بابا فرید الدین گنج شکر نے پاکپتن سے علم کی شمع روشن کی۔ جس سے پورا برصغیر اخلاقی،معاشرتی اور معاشی برتری کے گھوڑے پر سوار ہوکر ایک عرصہ تک فیض یاب ہوتا رہا۔ آج جو پاکستانی نظام تعلیم کی حالت ہے، اگر ان شہروں سے کوئی یہ فیصلہ کرلے کہ طالبعلموں کے اخلاق، ان کی تعلیم و تربیت اور عملی زندگی میں کامیابی کیلئے اس بیسود ایجوکیشن سسٹم کو سودمند نظام میں بدلنا ہے،تو بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اور حیران کن طور پر آج ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔ اچھے مقدر کے بچھڑے ستارے مل گئے ہیں۔ آج کی وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف کا تعلق لاہور سے ہے۔ آج کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات قصور کے باسی ہیں۔ اور آج کے سیکرٹری تعلیم خالد نذیر وٹو کا شہر پاکپتن ہے۔ 
مریم نوازشریف اور وزیر تعلیم نظام تعلیم کو بہتر کرنے کی کوششوں میں جتے ہیں۔ اور سیکرٹری تعلیم کا کہنا ہے وہ ایجوکیشن سسٹم کی بہتری کیلئے حکومتی پالیسی کا نفاذ ہر صورت یقینی بنائیں گے۔ جب عمدہ طرز حکمرانی کی مثال قائم کرنے والی حکومت کو خالد نذیر وٹو جیسے محنتی،دانا،بااخلاق اور دیانتدار بیوروکریٹکس مل جائیں، تو تاریخ گواہ ہے قوم اور ملک کے مقدر بدل کر ہی رہتے ہیں۔ سیکرٹری ایجوکیشن سکولز خالد نذیر وٹو متعدد محکموں میں رہے.سیکرٹری فوڈ گلگت بلتستان،ڈائریکٹر جنرل انڈسٹریز پنجاب، ایم ڈی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اور ڈائریکٹر جنرل پنجاب ہائوسنگ اینڈ ٹائون پلاننگ ایجنسی میں بہترین انداز میں خدمات انجام دیں۔ خالد نذیر وٹو نے سیکرٹری ایجوکیشن کا چارج سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں نوائے وقت کو مزید کیا بتایا، وہ کیا اقدامات اٹھانے جارہے ہیں،سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجاب سے خصوصی گفتگو نذر قارئین ہے۔
نوائے وقت: والدین پرائیویٹ سکولز کو سرکاری سکولز پر ترجیح کیوں دیتے ہیں؟ کیا یہ سرکاری سکولز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟ 
خالد نذیر وٹو: ہمارے لیے یہ حوصلہ افزاء￿  رہا کہ رواں سال میٹرک کے امتحانات میں تمام کی تمام پوزیشنز سرکاری سکولز کے طالب علموں نے حاصل کی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکاری سکولز کا معیار تعلیم بہتری کی جانب گامزن ہے۔ ہماری وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ نے پوزیشن ہولڈرز کے خاص ایونٹ کا انعقاد کیا جہاں بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعامات دیئے گئے۔ میڈم چیف منسٹر کی اگر آپ اس دن کی تقریر سنیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ وہ بچوں کی تعلیم کے لیے کتنا سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے اس دن کئی پروجیکٹس کا اعلان  کیا۔
 پرائیویٹ سکولز اور سرکاری سکولز کے درمیان ایک خاص فرق انفراسٹرکچر کا ہمیشہ  رہا ہے۔ ابتداء￿  سے ہی پرائیویٹ سکولز میں پْرکشش کلاس رومز اور آرام دہ کرسیاں رہی ہیں۔ جبکہ سرکاری سکولز کی تاریخ دیکھیں تو یہاں بیٹھنے کے لیے ٹاٹ میسر تھے۔ جبکہ سکول کی عمارت بھی کہیں تھی تو کہیں کھلا آسمان ہی چھت کہلاتا تھا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی سرکاری سکولز کے اساتذہ ڈنڈے کا بلا خوف استعمال کرتے تھے۔ جبکہ پرائیویٹ سکولز میں ایسا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے بہترین اساتذہ جن کی علاقے میں خاص پہچان تھی جب ریٹائر ہوئے تو انہوں نے اپنا سکول کھول لیا۔ یوں وہ لوگ جو اپنے بچوں کو ان سے پڑھانا چاہتے تھے انہوں نے اپنے بچے سرکاری سکول سے اٹھا کر پرائیویٹ سکول میں داخل کروا دیے۔ یہ وقت سال 2000 کا تھا۔ لیکن اب وقت بدل گیا ہے۔ ہمارے سرکاری سکولز کے پاس ان کی اپنی عمارت،انفراسٹرکچر، کوالیفائیڈ ٹیچرز موجود ہیں۔ ہمارے پاس ایسے سکولز ہیں جہاں داخلے کے لیے باقاعدہ لوگ سفارش لے کر آتے ہیں۔ ہمارے ان سرکاری سکولز کی کارکردگی کئی نامور پرائیویٹ سکولز سے بہتر ہے۔
سوال: وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف کی جانب سے کم عمر بچوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے میل پروگرام کا آغاز کیا جا رہا ہے،اس پروگرام سے کتنے بچے مستفید ہوسکیں گے؟
خالد نذیر وٹو: یہ پروگرام جنوبی پنجاب سے تین اضلاع راجن پور،ڈی جی خان اور مظفر گڑھ میں شروع ہونے جا رہا ہے۔ 6000 ملین روپے اس پروگرام کا بجٹ ہے۔ پروگرام اگلے سال مئی تک چلے گا۔ 4 لاکھ سے زائد پرائمری لیول تک کے بچے مستفید ہوں گے۔ بچوں کو غذائیت سے بھرپور دودھ دیا جائے گا۔ بچوں تک یہ سہولت پہنچانے کے لیے ہم نے ٹیم تشکیل دی ہے، جو بچوں کی تصاویر بھی لیں گی۔ اس کے علاوہ جن پیکٹس میں ہم دودھ دیں گے، وہ خالی ہونے کے بعد واپس بھی لیے جائیں گے۔ جو ری سائیکل ہوں گے،اور ان سے ان ہی سکولز کے لیے چیئرز اور دیگر اشیا بنائی جائیں گی۔ ساتھ ہی بچوں کو یہ پیغام جائے گا کہ کوئی چیز ضائع کرنیکی بجائے اسے ری سائیکل کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سوال: ریکارڈ میں ایک بچے کا نام کئی سکولز میں درج ہے،اس مسئلے کی وجہ اور حل کیا ہے؟
خالد نذیر وٹو: اس مسئلے کا واحد حل موثر مانیٹرنگ ہے۔ ہمارا ایک سسٹم ہوتا تھا۔ ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ اینڈ آفیسرز کے ماتحت ایم ای ایز ہوتے تھے۔ یہ مختلف سکولز میں جاکر حاضری بھی چیک کرتے تھے۔ اور بچوں سے ٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم بھی کرتے تھے کہ وہاں کا معیار کیا ہے۔ اس کے بعد ہمارا معیار تعلیم بہت اوپر گیا تھا۔ بعد میں گورنمنٹ کے بدلنے سے اس سسٹم پر بھی اثر پڑا۔ اب ہم جو جدت لا رہے ہیں اس میں مانیٹرنگ کا شفاف اور مربوط نظام بھی شامل ہے۔
سوال: سرکاری سکولز کی بہتری کے لیے کیا کیا اقدامات اٹھانے جا رہے ہیں؟ 
خالد نذیر وٹو: ہم سکول مینجمنٹ کونسلز بنانے جا رہے ہیں۔ ان کونسلز کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ان لوگوں کی کونسلنگ کریں جو اپنے بچوں کو نہیں پڑھا رہے۔کورونا آنے کے بعد بچوں کی سپورٹس سرگرمیاں ختم ہو گئی تھیں، جنہیں دوبارہ شروع کرنے کے لیے منسٹر سپورٹس اور منسٹر سکول ایجوکیشن کی میٹنگ ہوئی، جس میں طے پایا کہ سپورٹس ڈیپارٹمنٹ 500ملین روپے سکولز کے گراؤنڈز کی اپ لفٹ پر لگائے گا۔ اس کے علاوہ ہم ٹرانسفر پالیسی بنا رہے ہیں۔سی اوز کی ہائیرنگ کا پروسیس میرٹ پر ہوگا۔ ارلی چائلڈ ہڈایجوکیشن  کے لیے ایکسیلنس سنٹرز بنا رہے ہیں۔ٹیچرز کی تعداد پر بھی کام کر رہے ہیں۔ تمام سکولز میں ٹیچرز کی تعداد یکساں ہوگی۔ کہیں کم یا زیادہ نہیں ہوگی۔ 
اس کے علاوہ کوشش کر رہے ہیں طریقہ امتحان بھی بدلا جائے۔ رٹہ سسٹم کا خاتمہ ہو اور وہی امیدوار آگے آئیں جو رٹہ لگانے کی بجائے سمجھ سمجھ کر پڑھتے ہوں۔ 
مڈل ،میٹرک،اور انٹر کے طالب علموں کو ہنر مند بنانے کے لیے انہیں ٹیکنکل ایجوکیشن دیں گے۔اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ ہاتھ سے کام کرنے والا میرا دوست ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہاتھ سے کام کرنے کو اہمیت دینا چھوڑ دی ہے۔ اس سلسلے میں ہم طالب علموں کو کمپیوٹر کیساتھ ساتھ دوسرے ہنر بھی سکھائیں گے۔اس سلسلے میں دو میٹنگز ہو چکی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن