ع۔پیرزادہ
Eishapirzada1@hotmail.com
جن بچوں کو الفاظ پڑھنے، لکھنے، یاد کرنے میں مسائل ہوں ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈیسلیکسیا کا شکار ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں ڈیسلیکسیا کے حوالے سے والدین اور اساتذہ میں زیادہ شعور نہیں ہے اور زیادہ تحقیق بھی نہیں ہے۔ڈیسلیکسیا سے متعلق حکومت پاکستان نے 2020 میں ڈیسلیکسیاایکٹ متعارف کروایا تھا۔
اس ایکٹ کے تحت ہر سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ ڈیسلیکسیا کے حوالے سے اپنے اساتذہ کو تربیت فراہم کریں گے اور ایسے طالب علموں کی شناخت کی جائے، ان طالب علموں کو غیر روایتی اور جدید انداز میں تعلیم دی جائے اور کسی بھی طالبعلم کو صرف پاس، فیل یا کم نمبروں کی بنیاد پر سکول سے نہیں نکالا جائے گا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈیسلیکسیا مرض یا خرابی نہیں ہے۔ اس کے لیے کوئی دوائی نہیں ہے۔ یہ صرف پڑھنے لکھنے کی ایک مشکل ہے۔ان کے مطابق یہ پیدائشی طور پر اور عموماً مورثی ہوتی ہے۔ بعض اوقات کسی حادثے یا چوٹ کی بنا پر بھی ہو سکتی ہے مگر ایسے بچوں میں ذہانت اور تخلیقی صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہی ہوتی ہے۔
دنیا کی کئی نامور شخصیات ڈیسلیکسیا کی شکار تھیں۔ نامور سائنسدان آئن سٹائن، کاروبار کی دنیا میں تہلکہ خیز کامیابیاں حاصل کرنے والے برطانوی سر رچرڈ برانسن، برطانوی سپیس سائنسدان میگی ایڈرن، امریکی صدور جان ایف کینڈی، جارج واشنگٹن، جارج ڈبیلو بش اور اگر نام گنوانے بیٹھ جائیں تو شاید فہرست ختم نہیں ہو گی۔
یہ سب وہ لوگ تھے جنھیں لکھنے پڑھنے میں مشکلات کا سامنا تھا مگر انھوں نے دنیا کو بدل دیا تھا۔اعداد و شمار کے مطابق یہ مسئلہ ہر 10 میں سے ایک بچے میں پایا جاتا ہے۔
ڈسلیکسیا میں مبتلا بچے آوازوں یا اشکال میں فرق نہیں کرتے ، وہ لکھے ہوئے نمبروں اور حروف میں فرق نہیں دیکھتے اور نتیجتاً ایک جملے میں املا کی بہت سی غلطیاں کرتے ہیں۔ بچہ ملتے جلتے الفاظ کا فرق نہیں کرپاتا اور انہیں ایک جیسا سمجھتا ہے۔ وہ ایک لفظ کو کئی طریقوں سے لکھتا ہے۔اسی طرح ریاضی میں بچہ مختلف اصلاحات کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ یعنی تقسیم اور ضرب کے نشان میں بچہ فرق نہیں کرپاتا۔ ایسے بچوں کی اچھی کائونسلنگ کرنی چاہیے تاکہ بچے کے ذہن میں چلنے والے ہر سوال کا درست جواب مل سکے۔ ڈسلیکسیا والے بچے اکثر شرمیلی طبعیت کے ہوتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے درمیان غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ایسے بچوں میں ساتھیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
ڈسلیکسیا‘ کی علامات سب سے پہلے بچوں کے اساتذہ نوٹ کرتے ہیں لیکن زیادہ تر اساتذہ کو یہ علم نہیں کہ بچوں کی جانب سے درست انداز میں پڑھائی نہ کرپانے کی ایک وجہ ’ڈسلیکسیا‘ بھی ہوسکتا ہے۔ڈسلیکسیا‘ کے درست تشخیص کے لیے ماہر امراض اطفال سمیت اعصابی اور دماغی بیماریوں کے ماہرین کے پاس جایا جاسکتا ہے۔
ڈسلیکسیا‘ (dyslexia) کے شکار بچوں کے ساتھ ایک اور ناانصافی یہ ہوتی ہے کہ والدین اور دیگر افراد انہیں کم عقل اور نالائق سمجھ کر پڑھ نہ پانے پر انہیں ڈانٹتے دکھائی دیتے ہیں اور ان پر غصے کا اظہار کیا جاتا ہے، جس وجہ سے ایسے بچوں میں مایوسی بڑھ سکتی ہے۔جب کسی بچے میں ڈسلیکسیا کی علامات ظاہر ہو تو سائیکو تھراپسٹ سے مشورہ لیں اور اس کی ہدایات کے مطابق مناسب تدریسی انداز اور رہنمائی کے ذریعے بچے کے لکھنے، پڑھنے اور سیکھنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے پر کام کریں۔اس کے علاوہ بچے کی دماغی صحت کو بہتر رکھنے اور ان میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے انہیں ایسے کام کرنے کی ترغیب دی جائے جو وہ بہت اچھے طریقے سے کرتے ہیں۔ایسے بچوں کے ساتھ یہ بہت ضروری ہے کہ استاد اور والدین دونوں صبر و تحمل سے کام لیں۔