اسرائیلی درندگی : دنیا کب نوٹس لے گی؟

Aug 28, 2024

کرن عزیز کشمیری

غزہ میں اسرائیل کی درندگی عروج پر ہے۔ ایک اسرائیلی سابق میجر نے انکشاف کیا ہے کہ ہم ناکام ہو چکے ہیں اور ایک ایسی دلدل میں پھنس چکے ہیں جس سے باہر نکلنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ اسرائیل کی ایک طرف حماس کے ساتھ جنگ جاری ہے تو دوسری طرف ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ سیہونی میجر نے بالاخر سچ اگل دیا۔ مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر غزہ جنگ بندی مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو خطے میں نہ ختم ہونے والی ایک خطرناک جنگ بھی چھڑ سکتی ہے اسرائیل کے سابق میجر جرنل ببزباک برک نے اپنے اس اہم انکشاف میں اسرائیل کا اصلی چہرہ اور حالات بے نقاب کیے ہیں۔ فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے والا اسرائیل خطے کے لیے درد سر بن چکا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے حملے میں 12 فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا یہ حملہ ایک اسکول پر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک حماس اسرائیل جنگ میں ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، کئی والدین اپنے نومولود بچوں سے محروم ہو چکے ہیں اور اسی جنگ کے نتیجے میں کئی فلسطینی بچے اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو چکے ہیں۔ بے گھر خاندان خیموں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہی وجہ ہے کہ غزہ کو کھلی جیل بھی کہا جاتا ہے۔ فلسطینی آزادی کے احساس سے محروم ہیں۔ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے۔ جذبہ آزادی کے لہو میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے۔ غزہ میں بہترین پناہ گاہ ہسپتال سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اسرائیلی درندگی اور مظالم کی وجہ سے فلسطینی علاج کے لیے بنائی گئی جگہوں پر بھی محفوظ نہیں۔ جنگ میں زخمی فلسطینی امت مسلمہ کی خاموشی پر سوالیہ نشان ہے۔ بچے اور والدین بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ بے گھر فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اسرائیلی قبضہ 75 سال سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں سوائے زبانی جمع خرچ کے اب تک کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکی ہے۔ رفح پر اسرائیلی بمباری سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں وحشت کی تصویر بن چکی ہے۔ جنگی طیاروں نے معصوم بچوں اور بزرگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اسرائیل کسی وقفے کے بغیر غزہ پر بم برسانے میں مصروف ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع ایک ایسا صدمہ ہے جس سے انسانی حقوق کی تنظیمیں محسوس کیے بغیر شرمندگی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ امت مسلمہ ایک ہاتھ کی مانند ہیں جس کی ساری انگلیاں یکجا ہو کر ایک مکہ بنا دیتی ہے۔ تاہم ٹکڑوں میں بٹے ہوئے مسلم ممالک اپنے اپنے مفادات کے درپیش زبانی جمع خرچ سے بھی محروم ہیں۔ اور اسرائیلی مظالم پر آواز اٹھانے سے قاصر ہیں۔ کچھ ممالک کی اکا دکا آوازیں فلسطینی کے غم کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتی۔ اسلامی تنظیموں کا قیام کس لیے عمل میں لایا گیا تھا؟ یہ جنگ اسرائیل کے گلے کا پھندہ بن چکی ہے. امریکہ اسرائیل کی مکمل طور پر حمایت کرتا ہے. فلسطینیوں کو کچھ چلنے کا سرٹیفیکیٹ دے رکھا ہے. فلسطینیوں کے لیے ہر دن ایک چٹان کی طرح سخت ہے. امریکہ اور بھارت  اسرائیل کے مسلسل حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہ دونوں ممالک خطے کی سلامتی کے لیے شدید خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ آگ اور خون کی اس جنگ میں فلسطینی خود کو تنہا نہ سمجھ بیٹھیں۔ آج اگر امت مسلمہ خاموش ہے تو مغرب اسے کمزوری نہ سمجھ بیٹھے، اسرائیل ایک دہشت گرد ملک ہے، لگام دینا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ لبنان پر اسرائیلی حملے سے بچے سمیت آٹھ افراد شہید ہو چکے ہیں۔ 10 ماہ میں غزہ میں جو کچھ بھی ہوا تباہ کن ہے۔ اسرائیل کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک انسانی قدروں کو پامال کرنے میں مصروف ہے۔ امریکہ کی انسانیت دشمن سرگرمیاں قابل مذمت ہے۔ امریکہ کی طاقت اور کرپشن کو خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم امریکہ کا اسرائیل کی حمایت کرنا انتہائی خطرناک امر ہے۔ہم فلسطینیوں کو تباہ ہوتے دیکھ رہے ہیں اور فلسطین یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بھائی یعنی امت مسلمہ مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہمیں کہہ دینا چاہیے فلسطینیوں سے کہ ہم تمہاری مدد نہیں کر سکتے۔ مشکل کی اس گھڑی میں اگر اسلامی تنظیمیں کوئی کردار ادا نہیں کر پا رہی تو فلسطینیوں کے لہو سے نہ انصافی ہے۔ او آئی سی اپنا اہم کردار ادا کرے اور اسرائیلی فورس کی جانب سے غزہ پر مسلسل حملوں کی شدید مذمت کی جائے۔ امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے دوست بن چکے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہمیشہ اسرائیلی درندگی کی مذمت کی گئی اور فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا گیا۔ تاہم اسرائیل کے غزہ پر حملہ روکنے کے لیے انسانی حقو ق کی تنظیمیں زبانی جمع خرچ کے بجائے اپنا مثبت اور اہم کردار ادا کرے۔

مزیدخبریں