سپریم کورٹ کی تشکیل و اختیار سے متعلق "قضیّئے" کا آغاز

وطن عزیز میں جمہوری سیاست نہیں حکمران اشرافیہ کے مختلف ستونوں اور دھڑوں کے مابین اختیارات پر کامل گرفت کی جنگ چل رہی ہے۔ جنگ شاید مناسب لفظ نہیں کیونکہ اس میں ایک میدان جنگ ہوتا ہے جس میں اترے فریقین کی شناخت دشوار نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں گزشتہ کئی دنوں سے مگر جو یدھ برپا ہے وہ بنیادی طورپر بند کمروں میں تیار ہوئی سازشوں کے ذریعے ہمارے سامنے آتا ہے۔ فریقین بذات خود میدان میں نہیں اترتے۔ دوسرے فریق کے شاہ کو مات دینے کے لئے ’’مہرے‘‘ ڈھونڈتے۔ انہیں آگے بڑھاتے اور بسااوقات پٹوا بھی لیتے ہیں۔ جو یدھ جاری ہے اس کا میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے روزمرہّ مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں۔ حکمران اشرافیہ کی اندرونی لڑائی ہے۔ اسے لڑتے ہوئے تاہم جو حربے اختیار کئے جارہے ہیں وہ ہمارے اعصاب کو شل کررہے ہیں۔
گرمیوں کی چھٹیوں پر جانے سے قبل ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے 8عزت مآب ججوں نے ایک اہم ترین مسئلے کے بارے میں اکثریتی فیصلہ سنایا۔ اس کے مطابق 8فروری 2024ء کے روز جو انتخاب ہوئے تھے ان کے دوران تحریک انصاف کے حمایت یافتہ تصور ہوتے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کو اجتماعی طورپر جو ووٹ ملے تھے ان کے تناسب سے مذکورہ جماعت کو عورتوں اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستیں دینے کا حکم صادر ہوا۔ شہباز حکومت اور اس کے اتحادی مذکورہ فیصلہ سن کر حیران وپریشان ہوگئے۔ ان کی دانست میں تحریک انصاف نے بطور سیاسی جماعت فروری 2024ء کے انتخاب میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ ’’آزاد‘‘ حیثیت میں انتخابی میدان میں اترے تھے۔ ان میں سے جو افراد کامیاب ہوگئے انہوں نے سنی اتحاد کونسل میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا اور ضم ہوجانے کے بعد ’’اس جماعت کے لئے مختص‘‘ عورتوں اور غیر مسلم پاکستانیوں کی نشستوں کا تقاضہ کیا۔ الیکشن کمیشن یہ بھی یاد دلانا شروع ہوگیا کہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ نے بذاتِ خود 2024ء  کا انتخاب بطور ’’آزاد امیدوار‘‘ لڑا تھا۔ اس کی جانب سے قواعد وضوابط کے مطابق فروری 2024ء کے انتخاب سے قبل عورتوں اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستوں کے حصول کے لئے نامزد کردہ افراد کی فہرست بھی الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائی گئی تھی۔
قضیہ بالآخر سپریم کورٹ پہنچا۔ وہاں اس کے بارے میں کئی دنوں تک ٹی وی سکرینوں پر براہ راست دکھائی بحث بھی جاری رہی۔ کارروائی اپنے انجام کی جانب بڑھنے لگی تو اندازہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں کا ایک بڑا حصہ ’’مکمل انصاف‘‘ فراہم کرنا چاہ رہا ہے۔ اس گروپ کی دانست میں تحریک انصاف کو زور زبردستی فروری 2024ء کے انتخاب میں بطور ایک سیاسی جماعت حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن اور حکومت کے وکلاء  تلملا کر فریاد کرتے رہے کہ تحریک انصاف تو سپریم کورٹ کے روبرو رکھے قضیے میں ’’فریق‘‘ ہی نہیں تھی۔ خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستوں پر حق کا دعویٰ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے دائر ہوا ہے۔ ’’مکمل انصاف‘‘ کے تصور پر ڈٹے جج صاحبان مگر ان کے دلائل سے مطمئن نہ ہوئے۔ بالآخر جو فیصلہ کیا وہ ’’مکمل انصاف‘‘ فراہم کرتا ہی محسوس ہوا۔ 
الیکشن کمیشن اور حکومت مذکورہ فیصلہ پر عملدرآمد کو آمادہ نہیں۔ ’’تفصیلی فیصلہ‘‘ کے منتظر ہیں۔ وہ غالباََ گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوجانے کے بعد ستمبر کے وسط میں آسکتا ہے۔ حکومت کو تفصیلی فیصلہ آنے تک جو وقفہ ملا ہے وہ محلاتی سازشیں تیار کرنے میں صرف ہورہا ہے۔ ہمارے کئی متحرک رپورٹروں نے بند کمروں میں تیار ہوئی سازشوں کا مگر سراغ لگالیا۔ روایتی میڈیا میں ان کی بتائی کہانی نمایاں انداز میں قارئین وناظرین تک پہنچ نہیں پائی۔ اپنی بات سمجھانے کے لئے یوٹیوب کا سہارا لینے کو مجبور ہوئے۔
ان کی مچائی دہائی نے اس تصور کو فروغ دیا کہ حکومت اور اس کے (سیاسی اور غیر سیاسی) اتحادیوں نے بالآخر یہ طے کرلیا ہے کہ ان دنوں کی عدلیہ بحیثیت ادارہ مبینہ طورپر یکسو ہوکر انہیں بے بس ولاچار بنانا چاہ رہی ہے۔ آئین میں لکھے الفاظ کے مطابق ’’انصاف‘‘ فراہم کرنے کے بجائے حیران کن تاویلات سے تحریک انصاف کی ’’دلجوئی‘‘ ہورہی ہے۔ 1950ء کی دہائی سے عدلیہ عموماََ ریاست کے طاقت ور ترین اداروں کی سہولت کاری کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ سہولت کاری کی عادی ہوئی ریاست عدلیہ کے موجودہ رویہ سے حواس باختہ ہوگئی۔ بالآخر اسے قابو میں لانے یا جی حضوری زبان میں یہ کہہ لیں کہ ’’معتدل مزاج‘‘ بنانے کے لئے فیصلہ ہوا کہ آئین پاکستان میں عدلیہ کے فرائض واختیارات طے کرنے والی شقوں میں ترامیم متعارف کروائی جائیں۔
آئین میں ترمیم جمہوری معاشرے میں غیر معمولی عمل تصور نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں سیاست مگر اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوچکی ہے۔ مذکورہ تقسیم کو ڈھٹائی سے نظرانداز کرتے ہوئے بھی حکومت اپنے ذہن میں آئی ترامیم منظور کرواسکتی تھی۔ اس کی واضح مجبوری مگر دو تہائی اکثریت سے محرومی تھی۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھ ایسے نام نہاد پارلیمانی رپورٹنگ کے سدھاے بڈھے رپورٹر جھکی انداز میں اپنے نوجوان ساتھیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کریاد دلاتے رہے کہ دو تہائی اکثریت سے محروم حکومت عدالت کو آئین میں ہوئی ترامیم کی بدولت لگام ڈالنے میں ناکام رہے گی۔ اپنے نوجوان ساتھیوں کا شکر گزار ہوں کہ وہ سرجھکائے میرا جھکی پن برداشت کرتے رہے۔
پیر کی شام اپنے تئیں یہ جان کر میں نے بہت شادمانی محسوس کی کہ حکومت نے عجلت میں بلائے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وہ ترامیم منظوری کیلئے پیش نہیں کی ہیں جن کی دہائی مچائی جارہی تھی۔ منگل کی صبح اٹھتے ہی فون کھولا تو اس میں منگل کی صبح 11:30کو بلائے قومی اسمبلی کے اجلاس کا ایجنڈا بھی موجود تھا۔ اسے آنکھوں کو رگڑتے ہوئے دو سے زیادہ مرتبہ بہت غور سے پڑھنا پڑا۔ منگل کا دن اراکین اسمبلی ’’نجی حیثیت‘‘ میں نئے قوانین متعارف کروانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے نور عالم خان نے اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئین میں ایک نہیں متعدد ترامیم متعارف کروانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اتفاقاََ آئین کی جن شقوں سے وہ ترامیم کی بدولت چھیڑچھاڑ کرنا چاہ رہے ہیں وہ تمام سپریم کورٹ کی تشکیل اور اس کے اختیارات سے متعلق ہیں۔ وہ قضیہ جس کا انتظار تھا بالآخر ایک دھماکہ سے شروع ہوگیا ہے۔ اس کے ’’فلیتے ‘‘ کو نظر بظاہر آگ اس ملاقات نے لگائی تھی جو صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ ہفتے کے آخری دنوں میں ’’اچانک‘‘ مولانا فضل الرحمن سے کی تھی۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...