پاکستان میں امن و امان کی خراب صورت حال پر دنیا کو بھی تشویش ہے، پاکستان میں دہشتگردی کے حملوں پر دنیا بھر سے ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ اہم ممالک پاکستان کی حمایت اور دہشتگردی کے واقعات کی مذمت کر رہے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان میں پائیدار امن کے دشمن بیرونی ہیں اور اندرونی طور پر بھٹکے اور بہکے ہوئے عناصر ان دہشتگردوں کے آلہ کار بن کر اپنے ہی وطن کے خلاف کام بھی کر جاتے ہیں۔ پاکستان نے دنیا میں دہشتگردی ختم کرنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا پاکستان میں دہشت گردی کے ان واقعات کی مذمت کرتی ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بننے والے یا اس جنگ کا قریبی جائزہ لینے والے جانتے ہیں کہ امن اور پائیدار امن سب کی ضرورت ہے اور یہ سب سے اہم بھی ہے۔ پاکستان میں شرپسندوں کی کارروائیوں پر دنیا مذمت کر رہی ہے لیکن سیاسی قیادت اس معاملے میں آج بھی تقسیم ہے۔ گذشتہ روز شبلی فراز نے سینیٹ میں جو گفتگو کی ہے کیا وہ اس کا کوئی جواز پیش کر سکتے ہیں۔ کم از کم دہشت گردی کے خلاف اور ملکی مفاد کے لیے بات کرتے ہوئے تو انہیں کچھ خیال کرنا چاہیے۔ کیوں ایسے معاملات میں سیاست کرتے ہیں۔ جب وقت تھا ان کی آواز نہیں نکلتی تھی آج ملک مشکل میں ہے تو انہیں اپنی سیاست کی پڑی ہے۔ بلوچستان میں جو ہو رہا ہے یہ کسی قوم کے خلاف یا کسی برادری کے خلاف نہیں ہے، نہ ہی یہ صوبائی تعصب ہے یہ کارروائیاں پاکستان کے خلاف ہیں۔ ہمارے ملک کی ترقی اور امن کے خلاف ہیں۔ ان واقعات کی ہر سطح پر مذمت اور ایسے عناصر کے قلع قمع کرنے کے لیے دفاعی اداروں کا ساتھ دینا چاہیے۔ سیاسی قیادت کو ایسے معاملات میں ذاتی اختلافات یا سیاسی نظریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔ سیاسی قیادت کو یہ بھی طے کر لینا چاہیے کہ ہر مظاہرے اور احتجاج کو بنیادی حق قرار دے کر سیاست کا راستہ تلاش کرنے کے بجائے ملک اور قوم کے مفاد کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔ بلوچستان میں بھی بلوچوں کے حقوق کو بنیاد بنا کر مظاہرے ہو رہے ہیں کیا یہ مظاہرے خالصتا بلوچوں کے بنیادی حقوق کے لیے ہیں۔ یقینا ایسا نہیں ہے کیونکہ اگر یہ لوگ کسی محرومی کے لیے میدان میں ہوں تو بڑی تعداد میں اپنے ہی ہم وطنوں، قانون نافذ کرنے والے، اپنے فوجی جوانوں کو شہید کرنے کا راستہ اختیار تو نہیں کرتے۔ درحقیقت یہ احتجاج بلوچوں کے بنیادی حقوق نہیں بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے لیے ہے، بلوچستان میں ہونے والے فنڈڈ احتجاج پاکستان میں سی پیک منصوبوں کو روکنے کے لیے ہیں، بلوچستان میں ہونے والے احتجاج دراصل صوبے کی ترقی میں رکاوٹ کے لیے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کو روکنے کے لیے ہے۔ ریاست ایسے شرپسندوں کو پوری قوت کے ساتھ ٹھکانے لگانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ ان شرپسندوں کو جہنم واصل کیا جانا چاہیے۔ ان کی سرپرستی اور معاونت کرنے والوں کو بھی ناصرف بے نقاب کیا جائے بلکہ ان سے اپنے شہداء کا انتقام بھی لینا چاہیے۔
وزیراعظم شہبازشریف کہتے ہیں کہ آئین پر یقین رکھنے والوں سے بات چیت کے دروازے کھلے ہیں تاہم دوست نما دشمنوں کے ساتھ کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ دشمنوں کو پہچاننے اور انہیں شکست دینے کیلئے یکجہتی کا اظہار کرنا ہو گا، کسی قسم کی کمزوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمیں پختہ ارادے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ ملک میں دہشتگردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں اور ان کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ امن دشمنوں کے لیے ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں۔ بلوچستان کا جلد دورہ کروں گا۔ پاکستان کو تسلیم کرنے والوں کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے ہیں۔ دہشتگردوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں گے۔ سپہ سالار، سپاہی دہشتگردی ختم کرنے کیلئے پرعزم ہیں، دہشتگردی کو ختم کرنے کاوقت آ گیا ہے۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے مشکل حالات میں دہشتگردوں کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے دفاعی اداروں کو ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔ انہوں نے افواج پاکستان کی دہشتگردوں کو ختم کرنے کے بلند عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔ بلوچستان میں ان کارروائیوں کا مقصد پاکستان میں بدامنی خلفشار پیدا کرنا اور دو دوست ممالک کی دوستی میں دراڑیں پیدا کرنا ہے۔ دہشتگرد پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ایران اور پاکستان کے مابین سوئی گیس پائپ لائن منصوبے پر پہلے بھی لکھا تھا کہ حکومت پاکستان کو اس منصوبے پر توجہ دینی چاہیے۔ طے شدہ وقت میں اپنی طرف کے کاموں کو مکمل کرنا چاہیے لیکن آج تک اس منصوبے پر پیشرفت نہیں ہوئی، برسوں سے یہ منصوبہ التوا کا شکار ہے۔ مہنگی بجلی پر شور مچایا جا رہا ہے لیکن پارلیمنٹ اس معاملے پر خانوش کیوں ہے۔ اگر منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا تو یہ اٹھارہ ارب ڈالرز کون ادا کرے گا اس کا بوجھ بھی عام آدمی پر ہی پڑے گا۔ کیا حکمرانوں کو اس کا احساس ہے۔پاکستان اربوں ڈالرز کا جرمانہ بھرنا چاہتا ہے یا پھر اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اگر پاکستان معاہدے کے مطابق اس پائپ لائن منصوبے کو مکمل نہیں کرتا تو اٹھارہ ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا اور اس معاملے میں ایران نے اپنا آخری نوٹس جاری کر دیا ہے کہ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ گیس کے حصول کے لیے چھ ماہ کی توسیع شدہ ڈیڈ لائن کے دوران اپنی زمین پر آئی پی گیس پروجیکٹ کے تحت پائپ لائن کی تعمیر نہ کرنے پر پاکستان کیخلاف اگلے ماہ ستمبر دو ہزار چوبیس میں فرانسیسی قانون کے تحت پیرس کی ثالثی عدالت سے رجوع کرے۔ پاکستان نے گیس سیلز پرچیز ایگریمنٹ پر پندرہ سال قبل فرانسیسی قانون کے تحت دستخط کیے گئے تھے پیرس میں قائم ثالثی عدالت دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کا فیصلہ کرنے کا فورم ہے۔ موجودہ حکومت کو جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے ان میں ایک توانائی بحران بھی ہے۔ اگر اس منصوبے سے سستی گیس مل سکتی ہے، کروڑوں انسانوں کی زندگیوں میں سہولت پیدا ہو سکتی ہے تو حکومت کیوں اس معاملے میں سستی اور کوتاہی کا مظاہرہ کر رہی ہے یا پھر کیوں ان عالمی طاقتوں کی طرف سے گرین سگنل کا انتظار کر رہی ہے۔ روس اور یوکرین کے مابین ہونے والی جنگ کے دوران کئی ممالک نے امریکہ کے خبردار کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے باوجود روس سے تجارتی تعلقات کو ناصرف بحال رکھا بلکہ تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنایا اور روس سے سستے داموں تیل خریدتے رہے۔ پاکستان کو بھی اپنے مسائل اور وسائل کو دیکھتے ہوئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں امیر مینائی کا کلام
ہوئے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چْن چْن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گْل ہیں نہ غْنچے نو بْوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں ان کو گزرے گْماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بْڑھیا یہ دنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ ذرا آنکھ اٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
خزاں لْوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
امیر اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پھلے پھولیں گے نکتہ داں کیسے کیسے