جان بچی سو لاکھوں پائے

ہماری گاڑی سست رفتاری کے ساتھ دریائے رائن کے پل کے اوپر سے گزرتے ہوئے سوئٹزرلینڈ کے شہر اسٹائن میں داخل ہونے ہی والی تھی کہ میرے دوست اکبر، جو کہ گاڑی میں میرے ساتھ موجود تھا، نے دھیمے لہجے میں کہا، "تم نے بھی یقیناً پاسپورٹ ساتھ نہیں رکھا ہوگا۔" یہ سن کر ایک لمحے کے لیے میں نے گاڑی آہستہ کر دی، مگر اگلے ہی لمحے پْراعتماد آواز کے ساتھ بولا، "او یار، ویکھی جائے گی" اور ریس کے پیڈل کو دبا دیا۔

اکبر اپنی فیملی کے ساتھ جرمنی کے شہر بیڈ زیکنگن میں رہائش پذیر ہے۔ یہ شہر جرمنی کے جنوب مغرب میں دریائے رائن کے کنارے آباد ہے۔ یہ دریا اور اس پر موجود پل درحقیقت جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے درمیان سرحد ہے۔
اکبر پیشے کے اعتبار سے فنانس ایکسپرٹ ہے اور برلن کی ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہے، اور اس کا کام زیادہ تر آن لائن ہوتا ہے۔ اس کی بیوی، جو کہ ایک فرانسیسی نڑاد مسلمان خاتون ہے، سوئٹزرلینڈ کی ایک نامور دواساز کمپنی میں ملازمت کرتی ہے اور"Grenzgänger" "گرینز گینگر" ہے۔
"گرینز گینگر" وہ شخص ہوتا ہے جو روزانہ کی بنیاد پر اپنی نوکری یا پڑھائی کے سلسلے میں پڑوسی ملک کی سرحد پار کرتا ہے مگر رہائش پذیر کسی دوسرے ملک میں ہوتا ہے۔
یورپ میں بیشتر افراد گرینز گینگر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پڑوسی ملک میں اپنے ملک کے مقابلے میں بہتر تعلیم یا ملازمت کی سہولتیں اور کمائی کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ چونکہ پڑوسی ملک میں کمائی کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، اس لیے رہن سہن کے اخراجات بھی اسی نسبت سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے لوگ رہائش اس ملک میں اختیار کرتے ہیں جہاں پر رہنے اور کھانے پینے کا خرچہ نسبتاً کم ہو اور ملازمت پڑوسی ملک میں اختیار کرتے ہیں تاکہ بچت میں اضافہ ہو سکے۔
آدھی رات ڈھل چکی تھی اور اب ہم سوئٹزرلینڈ کی"Autobahn" آٹو بان (موٹر وے) پر موجود تھے۔ ہمارے اس سفر کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اکبر نے مرسیڈیز کار کا نیا ماڈل خریدا تھا اور لاہوریے ہونے کے ناطے ہم نے کہا کہ گاڑی کی چس لی جائے اور اس کے فیچرز چیک کیے جائیں، وہ بھی رات کے اس پہر جب آٹو بان پر رش کم ہوگا۔
گاڑی کو آٹو بان پر دوڑاتے ہوئے، اکبر کی وہ بات کہ پاسپورٹ ساتھ ہیں، بہرحال میرے دماغ میں موجود تھی اور آدھا دھیان اسی طرف مرکوز تھا۔ 
میں اور اکبر دونوں جرمنی کے مستقل رہائشی (پرمیننٹ ریزیڈنٹ) ہیں، کیونکہ ہم پاکستانی شہریت کے حامل ہیں اور ہم جرمنی سے باہر دوسرے ملک میں داخل ہوئے تھے، قانون کے مطابق ہمارے پاس جرمنی کا ریزیڈنس پرمٹ اور پاکستانی پاسپورٹ ہونا لازمی تھا۔
اس خوف سے قطع نظر کہ پاسپورٹ ہمارے پاس نہیں تھے، ہم گاڑی کے مختلف حفاظتی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے گاڑی کے مختلف فیچرز آزما رہے تھے۔
اب باری آئی "لین اسسٹنس" فیچر کو آزمانے کی۔ 
نئی گاڑیوں میں یہ ایک بنیادی سا فیچر ہے جو کہ گاڑی کو اپنی لین میں رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور اگر غلطی سے یا حادثاتی طور پر آپ کی گاڑی اپنی لین بدلنے لگتی ہے تو گاڑی کا اسٹیئرنگ ہلکا سا وائبریٹ ہوتا ہے اور گاڑی کو خود بخود اپنی اصل لین میں واپس لے آتا ہے۔
دورانِ امتحان، بڑی احتیاط برتتے ہوئے، رئیر مرر میں دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا کہ میرے پیچھے جو گاڑی ہے وہ کم از کم 300 میٹر کی دوری پر ہے، جب میں نے ایک مرتبہ جان بوجھ کر گاڑی کی لین بدلنی چاہی، اس امید کے ساتھ کہ لین اسسٹنس کام کرے گا اور گاڑی خود بخود اپنی لین میں آ جائے گی۔ میری امید کے برعکس ایسا نہ ہوا۔ 
کچھ مسافت اسی حیرت میں طے ہوئی اور اکبر کو تسلی دی کہ بھائی کوئی بات نہیں، کبھی کبھی کوئی فیچر نہیں بھی چلتے، دل چھوٹا نہ کرو۔
خیر، یہ طے پایا کہ میں دوبارہ لین بدلوں اور چیک کروں کہ کیا واقعی یہ فیچر نہیں چل رہا۔ 
گاڑی کی اسپیڈ کو روڈ کی طے شدہ اسپیڈ کے برابر لایا اور دوبارہ لین بدلنے کی کوشش کی۔ حیران کن طور پر، گاڑی دوبارہ لین سے نکل کر دوسری لین میں داخل ہو گئی۔
اکبر بیچارہ اتنا ہی مایوس ہوا جتنا کسی شخص کو "جیرا پانی اوہی لال" کی گردان سنا کر تربوز بیچا جائے اور وہ گھر آ کر دیکھے کہ لال تو ہے مگر کچھ زیادہ ہی پکّا ہوا تربوز ہے اور اس کے کھانے سے ہیضہ ہونے کا امکان ہو۔
خیر، تسلی دینے اور مختلف پہلوؤں پر گفتگو جاری ہی تھی کہ سیدھے ہاتھ سے ایک گاڑی نے اوورٹیک کیا اور کچھ فاصلے پر جا کر ہمارے سامنے آ گئی اور ایک دم اس کے پیچھے والی اسکرین پر "BITTE FOLGEN" (PLEASE FOLLOW) کی بتیاں نمودار ہو گئیں۔
یہ ایک سول گاڑی تھی مگر اس میں پولیس والے موجود تھے۔ 
اکبر، جو کہ پہلے ہی مرجھایا ہوا تھا، کے منہ سے بیساختہ نکل آیا "ہور چپو"
میں چونکہ ڈرائیونگ سیٹ پر تھا، فوراً محتاط ہو گیا اور اپنی گاڑی کی اسپیڈ پولیس کی گاڑی کے ساتھ مناسبت پر لے آیا۔اب ہم نے سوچنا شروع کر دیا کہ جس بات کے جواب میں میں نے نعرہ بلند کیا تھا کہ "دیکھی جائے گی"، اس بات کی کیا توجیح دی جائے اور اپنی شکایات کا جو انبار ہم نے مرسیڈیز کے سامنے رکھنا ہے کہ لین اسسٹنس فیچر نہیں چل رہا، وہ ان کو کیسے سمجھایا جائے۔پولیس کی گاڑی کا پیچھا کرتے کرتے ہم آٹو بان سے نکل کر ایک فیکٹری کے مین دروازے کے باہر آ رکے۔ قانون کے مطابق، ہم نے لا کر اپنی گاڑی کا اگنیشن بند کر دیا، نشست پر براجمان رہے، حفاظتی بیلٹ باندھی رکھی، اور گاڑی کے اندر کی لائٹس آن کر دیں۔ اتنے میں دو پولیس والے وردی میں اتر کر میری (ڈرائیور کی) سائیڈ پر آئے اور آتے ہی جرمن میں ڈرائیورز لائسنس اور ریزیڈنس پرمٹ کا تقاضا کیا۔چونکہ معاملہ حساس تھا، ہم نے اپنی محدود جرمن زبان پر اتفاق نہ کیا اور پولیس والوں سے درخواست کی کہ بہتر یہی ہوگا کہ ہم انگریزی میں گفتگو کریں۔ تمام جرمنز اور سوئس لوگوں کی طرح انہوں نے یہی کہا کہ ہماری انگریزی اتنی خاص نہیں مگر جب بولنا شروع ہوئے تو کسی نیٹیو سے کم نہ تھے۔ ایک اہلکار نے ہماری دستاویزات کی جانچ پڑتال شروع کر دی، اور دوسرے نے سوال و جواب کرنا شروع کیے۔ 
پہلا سوال یہ تھا کہ کہاں سے آئے ہیں اور کدھر کو جا رہے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں میونخ سے اپنے دوست سے ملنے بیڈ زیکنگن آیا ہوا تھا اور رات کے اس پہر لانگ ڈرائیو پر گپ شپ مارنے نکلے ہیں اور واپس بیڈ زیکنگن اس کے گھر جائیں گے۔ چونکہ ہمارے دستاویزات درست تھے اور ہم پوری طرح تعاون بھی کر رہے تھے، پولیس اہلکاروں اور ہمارے بیچ اعتماد بحال ہو چکا تھا اور ان کا بات کرنے کا انداز بھی نہایت شائستہ تھا۔ اگلا سوال یہ تھا کہ کیا میں نے آج کے دن شراب نوشی تو نہیں کی۔ 
میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ آج کیا میں اس شغل سے کبھی بھی مستفید نہیں ہوا۔ پولیس والے کے منہ پر بھی تھوڑی سی مسکراہٹ آئی اور کہنے لگا آپ کو گاڑی سے باہر آنا ہوگا اور الکوحل کا ٹیسٹ دینا ہوگا۔یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ اس نے ایک آلہ نکالا جس کے آگے ایک چھوٹا سا پائپ سا لگایا اور مجھے کہا کہ اس میں 5 سیکنڈ تک پھونک مارو۔ 
میری جتنی بھی پھونک رہ گئی تھی، وہ 3 سیکنڈ میں ہی ختم ہو گئی۔ بہرحال اتنی پھونک ہی کافی تھی مجھے پر لگانے کے لیے۔ اس نے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور بتایا کہ آپ کی چیکنگ اس لیے ہوئی ہے کہ آپ نے دو مرتبہ اپنی لین مس کی ہے اور آئندہ احتیاط سے گاڑی چلائیے گا۔اللہ کے شکر سے نہ اس نے پاسپورٹ کا پوچھا، اور نہ ہی لین بدلنے کی وجہ ورنہ کام بڑھ جانا تھا۔جان بچی سو لاکھوں پائے کا اصل مطلب اس دن سمجھ آیا۔ 
اللہ اللہ کرکے وہاں سے نکلنے ہی والے تھے کہ اکبر کے فون پر اس کی بیگم کا پیغام آ گیا: "آپ کدھر ہیں؟ آپ کا بیٹا آدھی رات کو جاگا ہوا ہے اور رو رو کر سب کو جگا رہا ہے..."
سوئس پولیس سے تو جان بخشی ہو گئی، مگر اب باری تھی ہوم منسٹری کی۔ یہ قصہ کبھی اور سہی...

ای پیپر دی نیشن