بلوچستان کی آگ، حسن اتفاق اور ابوالارھاب.

اکبر بگٹی کی 18 ویں برسی پر بلوچستان میں جس طرح سے دہشت گردی کی قیامت برپا ہوئی ، اس نے سب کو سہما کے رکھ دیا ساتھ ہی پچھلے دو عشروں میں سیکورٹی نظام کی تباہی یا چلیئے ، کمزوری کو بھی آشکار کر دیا۔ دہشت گردوں نے ایک جگہ 23 شہری شناختی کارڈ دیکھ کے یعنی یہ یقینی بنا کر کہ پنجابی ہیں، شہید اور دس زخمی کر دیئے، درجنوں گاڑیاں، بسیں نذر آتش کر دیں۔ ایک جگہ گھات لگا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 14 ارکان شہید کر دئیے ، ایک جگہ 6 لاشیں لٹکا دیں، ایک جگہ 5 شہری شہید کئے، دو جگہ سے ریلوے کے پل اْڑا دئیے، دو مقامات پر تھانے اپنے قبضے میں لے لئے ، کوہ سلیمان میں پنجاب بلوچستان کو ملانے والی شاہراہ اپنے قبضے میں لے لی۔ 
یہ طے ہے کہ بلوچستان کی دہشت گرد تنظیموں کے سر پر بھارت کا ہاتھ ہے۔ وہ پیسہ بھی دے رہا ہے اور اسلحہ بھی لیکن طے شدہ ایک بات اور بھی ہے جس کا ذکر کم ہی کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ان دہشت گردوں کو تربیت اور پناہ کون دیتا ہے۔ ذکر کم اس لئے کیا جاتا ہے کہ یہ دونوں کام بھارت نہیں کرتا، ہمارے دو برادر اسلامی ملک کرتے ہیں، اب برادر کا یا برادران کا شکوہ ادا کرتے ہوئے شرم سی تو آتی ہے۔ 
کچھ عرصہ قبل دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی (الخوارج بلکہ ماورائے الخوارج) کا بی ایل اے سے جھگڑا تھا، پھر صلح کرانے والے ہاتھ نے صلح کرا دی، باہم شیرو شکر کر دیا، اب ہدف بھی مشترکہ ہے تو حکمت عملی میں رابطہ کاری بھی ہے۔ امیر الخارجین ملّا ہیبت عرب دہشت زادہ کی کلّی سرپرستی ہے۔ سرزمین بھی حاضر ہے، دہشت گردی کی مہارت سے استفادے کا چشمہ بھی کھلا ہے اور امریکہ سے مال غنیمت میں ملے ہتھیار بھی ازراہ کرم دستیاب ہیں۔ 
طے شدہ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے تین ٹکڑے کرنے کے منصوبے پر عمل شروع ہے اور منصوبے کے اندرونی سہولت کار بھی سرگرم ہیں۔ اگرچہ چاچے فیض کا چشمہ ڈھکن پوش ہونے کے بعد سے ان سہولت کاروں کی کمر ہمت پر ضرب نوحہ تو پڑی ہے لیکن کمر ابھی ٹوٹی نہیں۔ 
____
حقیقی آزادی پارٹی والے کل یہ خبریں سن کر بہت خوش تھے، رگوں میں فولاد دوڑ رہا تھا، لگتا تھا شربت فولاد کی پوری پوری بوتلیں پی کر آئے ہیں۔ دیکھا، مزہ آیا ناں۔ پوچھا، مزہ چکھانے والے کون تھے۔ جواب میں پْرمسّرت آنکھیں مٹکانے لگے۔ حقیقی آزادی کے بعض مجاہدین سے واقفیت کاری کا اعزاز حاصل ہے۔ ایسے ہی ایک مجاہد سے پوچھا کہ میاں یہ کیا ماجرا ہے، ادھر آپ کے قائد انقلاب ملک کو تین ٹکڑوں میں بانٹنے اور ایٹم بم گرانے کی باتیں کرتے ہیں ، ادھر اس منصوبے پر عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ہنس کر فرمانے لگے، بس حسنِ اتفاق ہے۔ حسن اتفاق! واہ، کیا خوبصورت بات کہی۔ پھر وہ پوچھنے لگے قائد انقلاب کو رہا تو کرنا ہی پڑے گا۔ جواب میں عرض کیا کہ یہاں بھی اتفاق سے حسن اتفاق کا معاملہ ہے۔ پوچھنے لگے کیسا حسن اتفاق ہے۔ عرض کیا حسن اتفاق سے آپ کے قائد اب کبھی باہر نہیں آئیں گے، بقیہ عمر خانہ عزلت میں خدا خدا کر کے یعنی خدا کو یاد کر کر کے گزاریں گے۔ اور مزید حسن اتفاق یہ ہے کہ بھنور بہت بڑے، گرداب بہت زیادہ ہیں لیکن ملک بچ نکلے گا۔ 
بھارت اور دو برادر اسلامی ملک ، تکون مکمل ہو گئی، لیکن یہ ایک تکون ہے۔ دوسری تکون میں امریکہ کی پاکستان مخالف لابی، برطانیہ کی گولڈ سمتھ لابی اور اوورسیز پاکستانیوں میں گھسے ہوئے اکھنڈ بھارتی اور جھوٹی نبوت کے ماننے والے خود ساختہ جلاوطن شامل ہیں۔ دو مثلث، اسرار و شیطنت سے بھرے دو اہدام،…بیچ میں پاکستان شیر کے مجسمے کی طرح ابوالہول بن کر ان دونوں تکونوں کو ڈرا رہا ہے۔ 
____
دہشت گردی کے دونوں عفریت بھارت اور دو برادر اسلامی ملکوں کے سائے میں ہیں، وہ فائدہ اٹھا رہے ہیں، آگ کو بھڑکا رہے ہیں۔ ان عفریتوں کے آقائے ولی نعمت بیرون ممالک ہیں بے شک، لیکن ان دونوں عفریتوں کو پیدا باہر والوں نے نہیں، اندر والوں نے پیدا کیا اور اندر والے بھی کیا، محض ایک اندر والا جو دونوں کا بانی مبانی تھا۔ 
آپ پہچان گئے ہوں گے، وہی جس کا لقب بابائے دہشت گردی ہے، یعنی فادر آف ٹیررازم یعین ابوالارھاب ہے۔ وہی جو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں تھا، وہی جسے امریکہ اپنا پوڈل کہتا تھا، وہی جس نے اربوں کھربوں کی رقم لگا کے چک شہزاد میں شاہی فارم ہائوس اور کئی شہروں میں اپنے رہنے کو محلات بنائے تھے، ایسے محل جو ایوان کسریٰ اور گنبد افراسیاب کو شرمندہ کر دیں لیکن جسے ان میں سے کسی میں رہنے کا موقع نہیں ملا اور جس نے زندگی کے آخری برس دبئی کے ہسپتال میں گزارے، وہی ہسپتال جو کروڑوں روپے ماہانہ خرچ کر کے بھی ابوالارھاب کیلئے کچھ ریلیف کا بندوبست نہ کر سکا۔ العیاذ والا مان! 
اس نے لال مسجد پر قیامت برپا کی، اتنی زیادہ تعداد میں بچیّاں فاسفورس بموں دیگر آتشی اور آہنی ہتھیاروں سے ماریں کہ شمار آج تک نہیں ہو سکا۔ اس قیامت کی کوکھ سے مذہبی دہشت گردی نے جنم لیا اور بالآخر یہ لوگ الخوارج بلکہ ماورائے الخوارج ہو گئے، ابلیس کے ہتھے چڑھ گئے۔ ایک افسر نے پنجاب سے تعلق رکھنے والی لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد کو جبراً بے آبرو کیا اور اس پر تشدد کیا۔ یہ واقعہ اکبر بگٹی کے علاقے میں پیش آیا تھا۔ اکبر بگٹی نے ابوالارھاب سے مطالبہ کیا کہ اس افسر کو پکڑ کر سخت سزا دی جائے۔ ابوالارھاب نے مطالبے پر مشتعل ہو کر اکبر بگٹی کو ، اس کے پورے خاندان کو، اس کے سینکڑوں ساتھیوں کو راکٹوں اور میزائلوں سے حملہ کر کے مار ڈالا۔ وہاں سے بلوچستان میں دہشت گردی کے سوتے پھوٹے۔ پھر ابوالارھاب کے ہر جانشین نے بلوچستان کی آگ پر مزید تیل ڈالا۔ آصف زرداری نے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی تو انہیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا، پھر نواز شریف نے اپنے دور میں بلوچستان کی شورش پر قابو پایا، امن بحال ہو گیا جس کا غصّہ ڈان لیکس ، دھرنے اور بالآخر پنامے کے اقامے کی صورت میں نکلا، طویل قید، جلاوطنی، بیگم کی وفات، کردار کشی کی لمبی، نہ ختم ہونے والی مہم۔ 
پہلی بار اداروں کی اعلیٰ قیادت بلوچستان میں امن کیلئے مخلص بھی ہے اور سنجیدہ بھی لیکن بھڑکتی آگ کے شعلے بہت بلند ا ور پھیلائو والے ہیں۔ قوم کی مدد شامل رہی تو یقین ہے، حافظ عاصم منیر اور ان کے ساتھی ملک بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن